قائد اعظم اور میاں بشیر احمد

صدیاں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں لیکن کچھ نقوش ایسے ہیں جو زمانے کا ان مٹ حصہ بن گئے ہیں، ہماری خوش قسمتی ہے کہ محمد علی جناح کی صورت میں ایک ایسا ہی نقش تابندہ ملا ہے جو اپنے کارناموں، کردار کی مضبوطی اور افکار کے حوالے سے ایک بھرپور تاریخ بھی ہے اور نشانِ منزل بھی، جناح کے ساتھ بہت مخلص لوگ تھے جنہوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر مسلم لیگ اور قائد اعظم کا ساتھ دیا، ان میں سے ایک مخلص بزرگ میاں بشیر احمد ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح سے ہماری نسل کا تعارف ٹیلی وژن نے میاں بشیر احمد کی اس مشہور زمانہ نظم سے کروایا جو اس دور کے بچوں کا واحد تفریحی ذریعہ تھا

‎ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح

‎ملت ہے جسم،جان ہے محمد علی جناح

‎بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میاں بشیر احمد کون تھے، پاکستان کے قیام کے حوالے سے جس خانوادے کی خدمات کا تذکرہ کئے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوتی میاں بشیر احمد اس عظیم خاندان کے فرد تھے۔

وہ برطانوی ہندوستان کے پہلے مسلمان چیف جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں کے فرزند تھے جن کو اقبال نے اپنی مشہور زمانہ نظم اے ہمایوں میں خراج عقیدت پیش کیا ہے، میاں شاہ دین لاہور کی ممتاز سماجی اور ادبی شخصیت تھے، جو علامہ اقبال کے ادبی سرپرستوں میں سے تھے۔

والد فوت ہوئے تو میاں بشیراحمد نے ان کی یاد میں رسالہ ہمایوں نکالا جو بہت جلد ایک انتہائی اہم ادبی اور تفریحی رسالہ بن گیا، اس کے پہلے شمارے کے لیے نظم کی درخواست لے کر علامہ اقبال کے پاس گئے تو علامہ نے شاہ دین ہمایوں کی یاد میں وہ نظم لکھی جو بانگِ درا میں 'اے  ہمایوں ' کے نام سے شامل ہے اور جس کا آخری شعر بے حد مشہور ہے

‎موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی

‎ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

‎انتظار حسین لکھتے ہیں کہ کتنے زمانے سے یہ ماہنامہ کتنی پابندی سے نکل رہا تھا کہ نمازی کی نماز قضا ہو جائے، مگر ہمایوں کا مہینے کی پہلی کو شائع ہونا اٹل تھا، ایک تو ایسی پابندی کی وجہ سے اس جریدے نے ادبی رسالوں کی دنیا میں اپنا امتیا ز قائم کیا تھا، باقی امتیازات الگ ہیں۔

یہ رسالہ بڑی شان کے ساتھ مہینے کے مہینے اپنی پیشانی پر اس شعر کو جھومر بنائے قارئین کے ہاتھوں میں پہنچتا تھا کہ

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی

دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا

ہمایوں علمی متانت اور ادبی معیار کا حسین امتزاج تھا،35 برس تک جاری رہا اور اس نے اردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔

اسی خانوادے میں سر میاں محمد شفیع، جہاں آراء شاہنواز، ممتاز شاہنواز، بیگم گیتی آراء، سر میاں عبدالرشید، لیڈی شفیع، لیڈی شاہ دین، منظر بشیر اور دیگر شامل ہیں۔

میاں بشیر احمد تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما اور پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پہلے صدر بھی رہے اور ذمہ داری خود قائد اعظم نے انہیں سونپی تھی، وہ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور قائد اعظم ان پر بے حد اعتماد کرتے تھے،  میاں بشیر احمد کی وہ نظم سالہاسال زبان زدعام رہی جس کا پہلا مصرع تھا

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح

قائداعظم اور مادر ملت فاطمہ جناح لاہورمیں انہی کے وسیع و عریض بنگلے میں ٹھہرتے تھے جو لارنس روڈ پر واقع تھا، قیام پاکستان کے بعد یہاں لاہور کے اصحاب فکر و نظر جمع ہوتے اور اٹھنے والے ملی اورقومی ایشوز پر گفتگو کرتے|۔

سن 1961ء میں ڈاکٹر سید محمد عبداللہ جو اورینٹل کالج کے پرنسپل اور علمی اور فکری محفلوں کے روح رواں تھے، انہوں نے انگریزی کی جگہ اُردو کو رواج دینے کی مہم شروع کر رکھی تھی۔

میاں بشیر احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی کا رخ کیا ،آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ میں ڈگری لے کر اور لندن سے بیرسٹری کی سند حاصل کر کے وطن واپس آئے اور 1891ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں اپنے آپ کو قوم کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا۔

پھر تین برس تک اسلامیہ کالج لاہور میں اعزازی لیکچرار رہے ،23 مارچ 1940ءکو منٹو پارک میں جلسے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔

اجلاس کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پہلی مرتبہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔

اجلاس میں پنجاب، بنگال اور آسام کے وزرائے اعلیٰ، مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم ارکان نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔

ہندوستان بھر سے آئے ہوئے مندوبین کے لیے قریباً دو ہزار خیمے نصب کیے گئے تھے، اجلاس کی تیاری کے لیے ایک مجلس استقبالیہ نواب سر شاہ نواز خان ممدوٹ کی صدارت میں قائم کی گئی اور میاں بشیر احمد کو سیکریٹری مقرر کیا گیا۔

میاں بشیر کی نظم ’ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘ انور غازی آبادی نے پڑھی، جس کو شرکاء نے سب سے زیادہ پسند کیا، یہ  نظم سالہاسال زبان زدعام رہی  اس  نظم کی  نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے جن چیزوں کا تذکرہ محض تصور کے طور پر کیا تھا یا انہیں مستقبل میں حاصل کرنے کی امید دلائی تھی،ان سے متعلق واضح کیا کہ عملی صورت میں محمد علی جناح ہمارے سامنے ہیں اور پاکستان ہماری منزل ہے۔

علامہ اقبال 1938ء میں انتقال کر گئے تھےگوکہ 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے الہٰ آباد میں ہونے والے اجلاس کے اپنے صدارتی خطبے میں انہوں نے ایک مملکت کا تصور پیش کر دیا تھا، اسی لئے انہیں مصور پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔

میاں بشیر احمد علامہ اقبال کی بہت عزت و احترام کرتے تھے اور ان سے بہت متاثر بھی تھے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میاں بشیر احمد کے والد جسٹس شاہ دین اقبال کےبہت ہی قریبی دوستوں میں سے تھے۔

سن 1940ء کے اس جلسے میں میاں بشیر احمد نے اس نظم کے ذریعے یہ بتانا چاہا کہ جس مرد مومن کا اقبال نے خواب دیکھا، اس کی تعبیر محمد علی جناح کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور صرف 7 سال بعد  پاکستان معرض وجود میں آگیا جس نے اقبال کے تصور کو حقیقت کا رنگ دے دیا اسی لئے قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ آج اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے یہ نظم ہمیں بتاتی ہےکہ وہ تمام چیزیں اب حقیقت کے روپ میں ‎ہمارے سامنے آ گئی ہیں۔

قوم کی روح، تقدیر کی اذاں، کارواں کا دوبارہ روانہ ہونا، وغیرہ وغیرہ یہ سب استعارے علامہ کی شاعری سے ماخوذ تھے جنہیں استعمال کرتے ہوئے میاں بشیراحمد نے بتا دیا کہ اب عملی تعبیر قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ جیسا کہ نظم میں  ہے کہ 

‎ملت ہے جسم ، جاں ہے محمد علی جناح 

اس مصرعے میں ‎کس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے قائد اعظم کے اوصاف کو اجاگر کیا گیا ہے اور اقبال کے تصور ملت کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ اگر ملت کو جسم سمجھا جائے تو جناح اس کی روح ہیں اور انہی کی پکار پر ملت دوبارہ متحد ہوئی، یہ نظم بہت مقبول ہوئی، 1940ء کی نوجوان نسل نے اس کو اپنی اگلی نسل میں منتقل کیا اور یہ آج بھی اسی طرح مقبول ہےجس طرح پہلے تھی۔

سن 1942ءمیں  قائداعظم نے انہیں مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا رکن نامزد کیا، وہ 1947ءتک اس منصب پر فائز رہے، 1946ء کے عام انتخابات میں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مجلس قانون ساز پنجاب کے رکن منتخب ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں انہیں ترکی میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا، اس عہدے پر وہ 1952ء تک فائز رہے، ترکی میں میاں بشیر احمدکی کوشش سے انقرہ یونیورسٹی ترکی میں اردو چیئر قائم ہوئی۔

وطن واپسی کے بعد میاں صاحب  اردو کی ہر ممکن خدمت انجام دیتے رہے، وہ پنجاب میں بابائے اردو کے سب سے بڑے رفیق اور مددگار تھے۔

انہوں نے چند کتابیں بھی مرتب کیں جن میں طلسم زندگی، کارنامہ اسلام اور مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں  بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔