بلاگ
Time 14 ستمبر ، 2017

این اے 120 اور انتخابی داؤ پیچ

لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 120 میں انتخابات 17 ستمبر کو ہوں گے۔

پانامہ لیکس کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ضمنی الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ جس میں حالات، میڈیا اور انتخابی تاریخ کے مطابق جیت پاکستان مسلم لیگ نواز کے حصے میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ عموماً ضمنی الیکشن میں وہی جماعت برتری حاصل کرتی ہے جس کے پاس وہ نشست پہلے سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جس صوبے میں ضمنی انتخابات ہوتے ہیں وہاں کی صوبائی حکومت بھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن ان تمام محرکات کے علاوہ انتخابی داؤ پیچ اور حکمت عملی انتخابی سائنس میں قلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

2013 کے بعد قومی اسمبلی کی 34 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں سے نواز لیگ 15، تحریک انصاف 6، پاکستان پیپلز پارٹی 5 اور ایم کیو ایم کو 3 ضمنی انتخابات میں کامیابی ملی۔

2013 کےعام انتخابات کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں چند اَپ سیٹ بھی ہوئے ہیں۔

مثلاً لودھراں کے حلقے این اے 154 میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں جیت نواز لیگ کے امیدوار کی بجائے تحریک انصاف کے جہانگیر خان ترین کے حصے میں آئی۔ ایسے ہی پشاور کے حلقہ این اے 1 میں 2013 میں عمران خان جیتے۔ مگر ضمنی الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور کو پشاور کے عوام نے منتخب کیا۔

لاہور کے حلقہ این اے 120 میں حالات اور انتخابی مہم دیکھ کر کسی اَپ سیٹ کی توقع کرنا میرے نزدیک تو بیوقوفی ہوگی۔ لیکن عمران خان سمیت تحریک انصاف کے دیگر رہنما پرامید ہیں کہ اس بار شکست نواز لیگ کے حصے میں آئے گی۔

درحقیقت لاہور کا یہ حلقہ 1985 سے نواز شریف کا گڑھ ہے اور 2013 کے انتخابات میں بھی اس حلقے سے نواز شریف نے تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد کو 40 ہزار ووٹوں کی برتری سے شکست دی تھی۔

اس حلقے میں قرطبہ چوک کے مقام پر ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے میں خلاف توقع حاضرین کی تعداد قدرے کم تھی۔ جوکہ ضمنی الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کے لئے اچنبے کی بات ہے۔

دوسری طرف بوجہ نواز لیگ امیدوار کلثوم نواز بیماری، سابق وزیراعظم کی صاحبزادی انتخابی مہم چلارہی ہیں جوکہ بڑی عید کے بعد اتنی متحرک ہوگئی ہیں کہ ہرروز حلقے کی کسی ناکسی گلی کوچے میں انتخابی مہم کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں خالی ہونے والی نشست پر اصل مقابلہ نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔ جبکہ 42 دیگر امیدوار سپورٹنگ ڈانسرز کا کردار نبھارہے ہیں۔

تحریک انصاف کی طرف سے نواز لیگ کے خلاف گندا پانی اور ٹوٹے سیوریج پائپس کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی جارہی ہے۔ جب کہ مریم نواز سابق وزیراعظم اور اپنے والد کی نااہلی کو بنیاد بناتے ہوئے ووٹ مانگ رہی ہیں۔

انتخابی مہم کے علاوہ اس حلقے میں بھی انتخابی داؤ پیچ نتائج پر گہرے اثر انداز ہوتے ہیں جن سے نواز لیگ تو بخوبی واقف ہے۔ لیکن تحریک انصاف ابھی تک اُن داؤ پیچوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

مثال کے طور پر الیکشن والے دن ووٹرز کو مہیا کیا جانے والا کھانا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ عمومی طور پر لاہوریوں کو بریانی کے مقابلے میں قیمے والے نان زیادہ پسند ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ کے پارٹی دفاتر اور پولنگ سٹیشنز کے باہر انتخابی دفاتر میں قیمے والے نان دیئے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ الیکشن کے دن سے ایک دن پہلے ووٹرز کے گھروں پر ووٹ کی تفصیلات جیسے پولنگ سٹیشن کا نام، شمارتی بلاک کوڈ اور سلسلہ نمبرز والی پرچیاں پہنچانے والی سیاسی جماعت کو قدرے برتری حاصل ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں ماضی کو دیکھا جائے تو ووٹنگ والے دن جب کسی پولنگ اسٹیشن پر حریف کا دباؤ زیادہ لگے تو تجربہ کار جیالے لائنوں میں لگ کر لڑائیاں کرتے ہیں تاکہ ووٹنگ کا عمل رُک جائے یا پھر آہستہ ہوجائے۔ الیکشن والے دن ووٹرز کو گھروں سے نکالنا اور اپنی گاڑیوں میں بیٹھا کر پولنگ سٹیشن لانا لے جانا بھی ووٹرز پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔

ممکن ہے کہ 2013 کے انتخابات اور بعد میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے جیالے یہ سب کاری گریاں سیکھ چکے ہوں۔ کیونکہ الیکشن میں اپنے امیدوار کو صرف جتوانا نہیں ہوتا۔ بلکہ حریف امیدوار کو ہروانا بھی ہوتا ہے۔


جیو نیوز اور اس کی ادارتی پالیسی کا اس بلاگ سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔