وجہٴ غم نہیں معلوم

— فائل فوٹو

انسان بھی ایک معمہ ہے کائنات کی تہہ در تہہ اسرار کو جاننے کا دعویدار، اپنے وجود کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر ہے۔ وہ برسوں اپنے اندر مہلک امراض کے جراثیم کی پرورش کرتا رہتا ہے اور لاعلمی میں خوشی اور صحت کا جشن مناتے ہوئے اُس ڈگر پر آ جاتا ہے جہاں مرض کی تشخیص میں لا علاج کا لفظ اپنی ذات کے بارے میں اُس کے تمام تر اعتماد اور بھرم کا مذاق اُڑاتا، اُسے گہرے دُکھ میں مبتلا کر دیتا ہے۔

یہی حال اُس کے مزاج، کیفیات اور محسوسات کا بھی ہے۔ وہ اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے ماحول، حالات اور معاشرت میں بظاہر زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے لیکن اُس کے آس پاس کے واقعات اُس پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں اس کا ادراک بھی اُسے ایک ایسے مقام پر پہنچ کر ہوتا ہے جہاں سب کچھ اُس کے ارادہ و اختیار سے باہر ہو چکا ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ دائمی کرب اور اذیت میں مبتلا انسان جو چاہتا ہے وہ ہوتا کیوں نہیں ہے، جو کہنا چاہتا ہے وہ کہنے پر قادر کیوں نہیں ہے اور جو کرنا چاہتا ہے وہ کر کیوں نہیں سکتا اور وہ سب کچھ کرنے پر کیوں مجبور ہوتا ہے جو وہ بالکل پسند نہیں کرتا۔ اسے زندگی بسر کرنے کے بجائے جھیلنی کیوں پڑتی ہے؟

کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی تجاوزات اور ذات کی حد بندی سے ماورا ہو کر سوچنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج کے انسان کو بھی یہی سوالات در پیش ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا نے انسان کو باہر سے اتنا باخبر کر دیا ہے کہ وہ اپنے اندر سے بے خبر ہو کر اپنی ذات کو پہچاننے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہو گیا ہے۔

وہ اپنا دل دروازہ کھول کر خود سے مکالمہ کرنے کی کوشش کرتا ہے نہ من کے تہہ خانے میں رکھے اسرار کے صندوقوں میں جھانک کر اپنی صلاحیتوں، امارت اور بصارت کا اندازہ لگانے کی سعی کرتا ہے۔ خود سے ملاقات کے لیے اُس کے پاس وقت ہے اور نہ یہ اُس کی ترجیح ہے۔ عاشق اور معشوق ایک وجود کا نام ہے، جو دو جسموں میں ظہور کرتا ہے اور پھر نفیٴ ذات کے مراحل سے گزر کر وحدت کی اُس منزل پر پہنچتا ہے جہاں ہیر اپنی جداگانہ شناخت کو رد کرتے ہوئے انا الحق یعنی "رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی کا اِعلان کرتی ہے"۔

یہ صرف ذات کی نفی نہیں بلکہ دو ذاتوں کا ایک وجود میں ادغام کا مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ رانجھا بذاتِ خود عشق، عاشق اور معشوق ہے حُسن بھی اُسی کا حصہ ہے۔ دو روحوں کی یکتائی تو تبھی ممکن ہوتی ہے جب ایک جسم میں موجود دل اور دماغ کسی ایک ڈگر پر رواں دواں ہوں اور رابطے کی مضبوط کڑی ہر وقت دونوں کو باہم مربوط رکھے۔

دل اور دماغ کے الگ الگ فیصلوں کی زد میں آنے والے انسان کی فکر اور عمل ہمیشہ اس کی خوشی اور پسند سے ٹکراتے رہتے ہیں اور اس کی ذات بھی مسلسل توڑ پھوڑ کا شکار رہتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اِنسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ ذات کی پوٹلی میں پڑی چیزیں ترتیب سے رکھ سکے۔ شاید نہیں … اس کے لیے تو کسی مرشد کی مہربان نظر اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو ہماری ذات کی ریاست کا حاکم بن کر تمام فیصلے کئے جاتا ہے اور دل و دماغ اس کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کئے جاتے ہیں کیونکہ یہ جبر کے نہیں محبت کے فیصلے ہوتے ہیں چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش ہر انسان کی دِلی مُرادہوتی ہے اور یہی وہ عمل ہے جب انسان کی اپنی ذات کے اسرار اُس پر کُھلتے ہیں۔

اپنی خودی، اختیار اور خود پسندی کے گمان میں مبتلا خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والے انسان کی زندگی میں اچانک کوئی ایسی ہستی آ جاتی ہے جس کے سامنے وہ اپنا ہر اختیار سرنڈر کر دیتا ہے۔ زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں ظہور کرنے والے اس خاص وسیلے کو مرشد کہا جاتا ہے جو ہمیں ہماری اوقات سے روشناس کراتے ہوئے یہ آگاہی دیتا ہے کہ ہم مکمل نہیں ادھورے ہیں۔ پھر وہ اس منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو دل اور دماغ کی وحدت اور دو روحوں کی یکتائی کی منزل کہلاتی ہے۔ مگر جب تک مرشد سے رابطے صحیح طور استوار نہیں ہوتے گو مگو اور بے یقینی کی کیفیت ہمہ وقت دل پر طاری رہتی ہے بلکہ بعض اوقات تو ہجر کی کیفیت میں دل ڈوبنے لگتا ہے۔ بقول شاعر #

فسردگی ہے مگر وجہٴ غم نہیں معلوم

کہ دِل پہ بوجھ ہے اک رنجِ بے سبب کی طرح

خدا کرے آج کے ہر انسان کو وجہٴ غم معلوم ہو اور بے ثمر تنہائی کا شکار ہونے کی بجائے کسی کی چاہت کا ہجر اُس کا نصیب ہو کہ محبت کرنا ہی اصل وظیفہ اور معراج ہے۔ بھلے وصال نہ سہی ہجر ہی سہی مگر محبت میں رہنا اک نعمت ضرور ہے۔


ڈاکٹر صغرا مصنف، کالم نویس اور PILAC کی ڈاریکٹر جنرل ہیں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔