بلاگ
Time 15 ستمبر ، 2017

این اے 120 کی انتخابی مہم اپنے جوبن پر

لاہور کے حلقہ این اے 120 میں سیاسی جماعتوں کا مقابلہ اپنی عروج پر پہنچ چکا ہے۔ آٹھ سیاسی جماعتوں کے درمیان شروع ہونےوالا یہ مقابلہ، اب تین جماعتوں مسلم لیگ-ن، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کا دنگل بن چکا ہے۔ تاریخی طور پے یہ حلقہ ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ تیس سالوں سے مسلم لیگ ن اس حلقے سے جیتی آئی ہے۔ لیکن اس بار حالات اور صورتحال مختلف ہیں۔

جہاں مقابلے کے بغیر ن لیگ جیت رہی تھی وہیں اب ن لیگ کو ٹکر دینے کے لئے پی ٹی آئی حالیہ سیاسی کامیابیوں کا سہارا لیتے ہوئے میدان میں بھر پور طریقے سے سامنے آ گئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے مریم نواز روزانہ ریلیاں اور جلسے نکال رہی ہیں تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ڈاکٹر یاسمین راشد اپنے کارکنوں کے ہمراہ ڈور ٹو ڈور کیمپین کر رہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں پیپلز پارٹی کی جانب سے امیدوار فیصل میر بھی ڈور ٹو ڈور کیمپین کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے مسلم لیگ ن کی بات کی جائے تو مریم نواز کی جانب سے حلقے میں روز ریلیاں اور پارٹی اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ دن کے آغاز سے نکلنے والی ریلی رات تک جاری رہتی ہے۔ چونکہ حلقہ 120 مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے، اس لئےن لیگ سے محبت رکھنے والوں ک بڑی تعداد مریم نواز کا استقبال بڑے ہی شایان شان سے کرتے ہیں۔

گلیوں اور محلوں میں لوگوں کی بڑی تعداد گلاب کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں، لوگ مریم نواز کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لمحات انتہائی حیران کن ہیں کیونکہ اگر عوامی رائےکی بات ہو، تو اسی حلقے کے زیادہ تر لوگ حکومت کے خلاف بولتے ہیں لیکن مریم نواز کی آمد پر لوگوں کے دلوں میں چھپی محبت جاگ جاتی ہے۔

چھتوں کے اوپر خواتین، مرد، اور بچوں کی بڑی تعداد جمع ہو جاتی ہے ۔اور جو ریلی درجنوں لوگوں کے ساتھ شروع ہوتی ہے اس ریلی کا اختتام سینکڑوں لوگوں پر جا کر ہوتا ہے۔ مریم نواز کیمپئین کے دوران گاڑی سے نکل کر جب لوگوں سے خطاب کرتی ہیں تو لوگ خاموشی سے ان کو دیکھتے ہیں، ان کی بات کو سنتے ہیں اور ووٹ دینے کا عہد کرتے ہیں۔ ان تقاریر میں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی گفتگو پر بھی زور دیا جاتا ہے۔

نواز شریف کے لئے محبت کی قسمیں دی جارہی ہوتی ہیں۔ اس بدلے کی ڈیمانڈ کی جارہی ہوتی ہے جو عوام کی فلاح کے لئے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

اس کے برعکس اگر پاکستان تحریک انصاف کی بات کی جائے تو ان کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد اس وقت ڈور ٹو ڈور کیمپئن کر رہی ہیں۔ صبح گیارہ بجے وہ اپنے گھر سے نکل کر حلقہ 120 کی گلیوں میں جاتی ہیں اور دروازوں پر دستک دے کر ووٹ اور لوگوں کی خدمت کے موقع کی اپیل کرتی ہیں۔ اس ساری صورتحال کے بعد لوگوں کا رویہ ڈاکٹر یاسمین کے ساتھ انتہائی مثبت دکھائی دیتا ہے۔

لوگ انہیں دعائیں دیتے ہیں، گھر کے اندر بلاتے ہیں، اور ان کی میزبانی کرتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنے مسائل ان کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔ آنکھوں دیکھا حال ہے کہ ڈور ٹو ڈور کیمپین کے دوران ڈاکٹر یاسمین راشد ایک گھر کے باہر رکیں جہاں ایک بوڑھی خاتون بیٹھی تھی۔

خاتون نے ڈاکٹر یاسمین کو بتایا کہ ان کے بیٹے نوکری نا ملنے کی وجہ سے خودکشی کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ اس گفتگو کے دوران خاتون رو پڑی، تو ڈاکٹر یاسمین راشد کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے اور انہوں نے کہا کہ میں الیکشن جیتو یا نہیں، آپ کے پاس دوبارہ آؤں گی اور آپ کے بیٹوں کے لئے نوکری لے کر آؤں گی۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی جانب سے بھی ریلیاں نکالی جارہی ہیں اور عمران خان کی قیادت میں جلسے منعقد کروائے جارہے ہیں جس میں روایتی انداز میں لوگ عمران خان اور پی ٹی آئی کے تبدیلی کے نعرے میں خوشی سے شریک دکھائی دے دیتے ہیں۔

اب اگر پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو ان کی جانب سے بھی ڈور ٹو ڈور کیمپین جاری ہے ۔ جو ٹکر کا مقابلہ اس وقت دکھائی دے رہا ہے وہ صرف مسلم ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہے لیکن پیپلز پارٹی بھی اس وقت کافی ووٹ توڑ کر لے جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میر کی جانب سے حلقے میں نئے دفاتر بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈور ٹو ڈور کیمپین اور پارٹی میٹنگز سمیت ریلیاں اور جلسے کیے جارہے ہیں۔ ڈور ٹو ڈور کیمپین کے دوران پیپلز پارٹی کو کہیں شکوے ملتے ہیں، تو کہیں لگاؤ کا یقین دلایا جاتا ہے۔ کسی گھر میں ذوالفقار علی بھٹو کی محبت ابھی تک برقرار ہے، تو کسی گھر میں بینظیر کے دیوانے بلاول کی راہ تک رہے ہیں۔

روایتی انداز میں لوگ فیصل میر کو بھی کہتے ہیں کہ جی، ہم آپ کو ووٹ دیں گے۔ جب لوگ انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کرتےہیں تو وہ انہیں آمادہ کرتے ہیں کہ آپ ووٹ دیں، ہم ان مسائل کو حل کریں گے۔

تینوں پارٹیوں کی انتخابی مہم زور و شور سے چل رہی ہے۔ کوئی رعب سے ووٹ مانگ رہا ہے تو کوئی جذباتی انداز اختیار کر رہا ہے اور کوئی یقین دلا رہا ہے کہ ووٹ دیں، سارے مسائل ختم ہو جائیں گے۔

یہی نہیں دوسری تمام سیاسی جماعتیں بھی اسی دوڈ میں شامل ہیں۔ لیکن اب لوگوں میں شعور دکھائی دیتا ہے۔ لوگ دھڑلے سے اپنی بات کرتے ہیں، اپنے دلائل دیتے ہیں اور ووٹ سے پہلے بحث کرتے ہیں۔


نوین علی جیو ٹی وی میں رپورٹر ہیں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔