پاکستان
Time 21 ستمبر ، 2017

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں، طاہر القادری



لاہور: پاکستانی عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کہا ہے کہ وزیراعظم پنجاب نے ماڈل ٹاؤن میں تاریخ کا بدترین قتل عام کروایا۔

لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے ذمےدار قرار دینے پر مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے قانون کو ہر دروازہ کھٹکھٹایا، انصاف نہ ملنے کے باوجود عدلیہ کے خلاف بدگمانی پیدا نہیں کی۔

طاہر القادری نے کہا کہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظر عام پر لانےکا فیصلہ انصاف کی طرف قدم ہے، سانحہ ماڈل ٹاون میں 3سال تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی، ہم ناامید نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ وزرا وہ بولیاں بول رہے ہیں جو پاکستان کے دشمن بولتےہیں ، آپ کے اندر چھپی پاکستان دشمنی آپ کی زبان پر آگئی، پتا چل گیا ہے کہ آپ کی وفاداری پاکستان سے کیا تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ شہدا کی تعداد 14 سےکہیں زيادہ تھی، کئی لاشیں غائب کردی گئیں۔

طاہر القادری نے کہا کہ 126 ملازمین کے خلاف مقدمہ درج ہوا مگر کارروائی نہ ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے باوجود ہم نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا، کبھی کسی ادارے کو برا نہیں کہا۔

سربراہ پاکستان عوامی تحریک نے کہا کہ جن کا نام ان کی ایف آئی آر میں ہے، فوری طور پر ان سب کو ای سی ایل میں ڈالا جائے، ، ان میں وزراء اور افسران بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ہی کئی افراد کو ملک سے باہر بھیجا جاچکا ہے۔

طاہر القادری نے کہا کہ ظلم و بربریت کےنظام کےخاتمے تک غریب لوگوں کو فتح نہیں مل سکتی، ہمارے خلاف ملک کی اشرافیہ نے ہم پر بےحد الزامات لگائے، آج کا فیصلہ قتل عام کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔

’اگر کمیشن کی رپورٹ میں آپکو ذمے دار نہیں بنایا گیا تو آپ نے کیوں رپورٹ دبا کر رکھی؟ رپورٹ دبانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ قاتلوں کوتحفظ دے رہے ہیں؟‘

انہوں نے مطالبہ کیا کہ کمیشن کی رپورٹ سانحہ ماڈل ٹاون کے متاثرین کو دی جائے۔

طاہر القادری نے کہا کہ شہباز شریف خود کو خادم اعلیٰ کہتے ہیں تو کیوں اپیل پر جارہےہیں؟ اپیل میں جانے کا فیصلہ اس بات کا اعلان ہےکہ آپ قاتل ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن

یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

اس موقع پر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک اور 90 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔

پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جس کی رپورٹ میں وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ خان کو بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ چھان بین کے دوران یہ ثابت نہیں ہوا کہ وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر قانون فائرنگ کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں۔

دوسری جانب اس واقعے کی جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں عدالتی تحقیقات بھی کرائی گئی لیکن اب تک جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظرعام پر نہیں لائی گئی تھی۔

عدالتی کارروائی

جمعرات کے روز لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظرعام پر لانے کا حکم دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی درخواست پر جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا۔

عدالت نے پنجاب حکومت کو حکم دیا کہ انکوائری رپورٹ منظر عام پر لائی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ 

مزید خبریں :