بلاگ
Time 28 ستمبر ، 2017

واہ میرے شیر

پاکستان میں آمریت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ جمہوریت کوبھی آمرانہ انداز میں چلایا جاتاہے اور اگر آپ جمہوریت پسندوں کے آمرانہ رویوں پر تنقید کی گستاخی کر بیٹھیں تو آپ کو آمریت کا حامی قرار دے دیاجائے گا۔

اس نئی جمہوریت پسندی میں مزاحمت کی نئی علامت نواز شریف صاحب نے دور ِ جدید کے انتہائی بے باک میڈیاکو بھی اپنی روایات تبدیل کرنے پر مجبور کردیاہے۔ 26ستمبرکو نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ اب وہ وزیراعظم نہیں رہے لیکن اس پیشی کے دوران ان کے اردگرد وزیراعظم ہاؤس کا سیکورٹی اسٹاف نظر آرہا تھا۔ ایک صحافی نے وزیراعظم کے سیکورٹی اسٹاف کی تصویر بنانے کی کوشش کی تو اس کی خوب خبر لی گئی۔ کچھ صحافیوں نے احتجاج کیا تو انہیں ان کے افسران بالا نے فون کرکے تنبیہ کی کہ زیادہ چیخ و پکارکی ضرورت نہیں نوازشریف ایک نہیں پانچ حکومتوں کے قائد ہیں۔

ایک مرکز، دو صوبوں، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے قائدکو وزیراعظم نے اپنی سیکورٹی دے کر کچھ برا نہیں کیا۔ غصے میں بپھرے ایک نوجوان صحافی نے مجھے فون کیا اور کہا کہ مطیع اللہ جان پر نامعلوم افرادکےحملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں آپ نے تقریر کرتے ہوئے واضح الفاظ میں خفیہ طاقتوں کو خبردارکیاکہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو تمہیں بے نقاب کرنےمیں کوئی قومی مفاد حائل نہ ہوسکے گا لیکن یہاں تو ہمیں مارنے والوں کی تصویریں موجود ہیں۔ کیا آپ انہیں کوئی پیغام نہیں دے سکتے؟

میں نے نوجوان سے کہا کہ میرے دفتر آجاؤ اور کیمرے پر اپنا بیان ریکارڈ کرا دو میں کیپٹل ٹاک میں تمہارا بیان نشر کردوں گا۔ یہ سن کر نوجوان صحافی گڑبڑا گیا۔ کہنے لگا نواز شریف کے پاس پانچ حکومتیں ہیں انہوں نے میرے ادارے کے اشتہار بند کردیئے تو میرے لئے مشکل ہو جائے گی۔ اس کے لہجے کی بے باکی ختم ہوگئی اور اس نے معذرت خواہانہ انداز میں فون کال بند کردی۔

اسی دن پنجاب ہاؤس میں نوازشریف نے چوہدری نثار علی خان کو اپنے پہلو میں اور درجنوں صحافیوں کو سامنے بٹھا کر ایک تحریری بیان پڑھا۔ تحریری بیان پڑھنے کی اس خصوصی تقریب کوپریس کانفرنس قرار دیا گیا حالانکہ اس نام نہاد پریس کانفرنس میں صحافیوں کو سوال کرنے کی اجازت نہ دی گئی۔

کچھ صحافیوں نے اپنی اس توہین پر احتجاج کی کوشش کی لیکن نواز شریف اٹھ کر چلے گئے۔ ہمارے بے باک ساتھیوں نے ایک دفعہ پھر خاموشی پر اکتفا کیا۔ ذرا سوچئے کہ ایسی گستاخی کوئی اور سیاستدان کرتا تو اس کے ساتھ کیا ہوتا؟

سوال یہ ہے کہ نواز شریف نے صحافیوں کو سوال کرنے کی اجازت کیوں نہ دی؟ انہیں یہ بالکل خدشہ نہیں تھا کہ ان سے پوچھا جائےگاکہ آپ کے ساتھ نیب عدالت میں جانے والے سیکورٹی اسٹاف نے صحافیوں کو کیوں مارا؟ انہیں اس بات کا خوف تھا کہ جب عدلیہ پر تنقید سے بھرپور تحریری بیان مکمل ہوجائے گا تو کوئی گستاخ صحافی یہ نہ پوچھ ڈالے کہ آپ کی دائیں طرف بیٹھے ہوئے چوہدری نثار نے تو کہا تھا کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کےفیصلے کے پیچھےکوئی سازش نہیں تھی کیا آپ چوہدری صاحب سے اتفاق کرتے ہیں؟

انہیں یہ بھی اندازہ تھا کہ جب وہ اپنی نااہلی کے عدالتی فیصلے کا مولوی تمیز الدین کیس سے موازنہ کریں گے تو کوئی یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ آپ نے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے فیصلے کو آئین اور جمہوریت کی فتح کیوں قراردیا تھا؟

ایسے ہی مشکل سوالوں سے بچنے کے لئے نوازشریف نے صحافیوں کو سوال کرنے کی اجازت نہ دی اور قائداعظمؒ کے راستے پر چلنے کا عزم دہراتے ہوئے تشریف لے گئے۔

ان کا یہ نیا جمہوریت پسندانہ انداز دیکھ کر مجھے جناب ضیاء شاہدکی نئی کتاب ’’باتیں سیاستدانوں کی‘‘ میں بیان کردہ کچھ واقعات یاد آگئے۔

جناب ضیاء شاہد نےاپنی اس کتاب میں اعتراف کیاہے کہ نواز شریف اور عمران خان کو سیاست میں لانے کے لئے ان کابہت اہم کردارر ہاہے۔ جناب ضیاء شاہد لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے اخبار کے چیف ایڈیٹر انہیں گورنر ہائوس لاہور لے گئے۔ جہاں گورنرغلام جیلانی کے ہمراہ ایک نوجوان صوبائی وزیر نوازشریف بھی موجود تھے۔

گورنرصاحب نے بتایا کہ یہ نوجوان وزیر جنرل ضیاء الحق کے پسندیدہ وزیر ہیں اور انہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا جائے گا لہٰذا آپ انہیں پروجیکٹ کریں۔

چیف ایڈیٹر نے گورنر کو یقین دلایا کہ جنرل ضیاء الحق کی خواہش کی تکمیل ہوگی اور ضیاء شاہد صاحب کو یہ اسائنمنٹ دیا گیا کہ وہ نواز شریف صاحب کو پروجیکٹ کریں گے۔ پھر ضیاء شاہد صاحب کی نواز شریف سے ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔

1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد نوازشریف وزیراعلیٰ بن گئے اور جب وہ پہلے دن اپنے دفترگئے تو ان کے ہمراہ ضیاء شاہد اور اسد اللہ غالب بھی تھے۔ جب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے نوازشریف کے خلاف بغاوت کی تو جنرل ضیاء الحق نے پرویزالٰہی کو ڈانٹ پلائی۔

ایک دفعہ جنرل ضیاء الحق نے ضیاء شاہد صاحب کو بلایا تو وہاں نواز شریف اور پرویز الٰہی بھی موجود تھے۔ جنرل صاحب نے پوچھا کہ پرویز الٰہی کا نواز شریف کے خلاف اخبار میں شائع ہونے والا بیان صحیح ہے یا غلط؟ ضیاء شاہد صاحب نے تصدیق کی کہ بالکل صحیح بیان ہے۔ جنرل صاحب نے مزید صحافیوں کو بلایا اور کہا کہ لکھ لو نواز شریف میرا وزیراعلیٰ ہے ان کے پیچھے میں کھڑا ہوں اور اپنے اخباروں میں یہ بھی چھاپنا کہ نواز شریف کا کِلّہ بہت مضبوط ہے۔ اگلے دن یہ بیان تمام اخبارات کی ہیڈلائن بنا۔

ضیاء شاہد صاحب نےاپنی کتاب میں لکھا کہ عمران خان کے ساتھ ان کی ملاقات سپورٹس جرنلسٹ شاہد شیخ کے ذریعے ہوئی تھی۔ عمران خان کی پہلی پریس کانفرنس کا ڈرافٹ ضیاء شاہد نے لکھا اور ان کی پارٹی کا نام حسن نثار نے تجویز کیا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان الحق نے عمران خان کو چائے پر بلایا۔ عمران خان آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر میں پہنچے تو انہیں 15منٹ انتظار کرنا پڑا جس پر وہ ناراض ہو کر چلے گئے۔

آئی ایس آئی کے سیاسی شعبے کےسربراہ میجر جنرل احتشام ضمیر نے ضیاء شاہد کو بتایا کہ عمران خان پندرہ منٹ انتظار نہیں کرسکا اس سے پہلے مولانا فضل الرحمٰن کو بلایا تو انہوں نے دوگھنٹے انتظار کیا۔

ضیاء شاہد نے فاروق لغاری مرحوم کے اصرارپر محمد علی درانی کے ہمراہ عمران خان کو منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے۔ ضیاء شاہد لکھتے ہیں کہ عمران خان بہت خوددار بلکہ اناپرست انسان ہے۔

انہوں نےبڑے افسوس سے یہ بھی لکھا ہے کہ عمران خان اشرافیہ کے خلاف آواز بلندکرتا ہے لیکن اشرافیہ میں گھراہواہے بلکہ اشرافیہ کادست نگر بن چکا ہے۔

ضیاء شاہد نے ذوالفقار علی بھٹوکے جمہوری دور میں شاہی قلعہ لاہورمیں قید کاٹی تھی۔ شاہی قلعہ کاقید خانہ بند ہو چکا ہے۔ اب صحافیوں کو قید کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے نت نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ اہل صحافت میں خبریں چھاپنے کی بجائے خبریں چھپانے والا ایک گروہ پیدا ہو چکا ہے جوجمہوریت کو آمرانہ انداز میں چلانے کےلئے سیاستدانوں کو مشورے دیتاہے۔

صحافی کا سوال اس کی بہت بڑی طاقت ہوتی ہےاور میرا بھائی شاہزیب خانزادہ تو سوال کی چوٹ سے کئی دیواریں گرا چکاہے لیکن جو جمہوریت پسند سیاستدان صحافیوں سے سوال پوچھنے کا حق ہی چھین لیں انہیں آپ کیا کہیں گے؟ شیر یاکچھ اور؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔