مہنگائی اور ہمارے سماجی رویے

مہنگائی ہونا کوئی بڑی بات نہیں یہ دنیا بھر کا  مسلہ ہے لیکن مصنوعی مہنگائی پیدا کرنا نہایت شرم کی بات ہے جو ہمارے ہاں عام ہے۔ ہم بات اسلام کی کرتے ہیں لیکن ہمارے اعمال یہود و نصاری کو بھی شرمانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کوئی عید تہوار ہو یا ملک میں کسی قسم کی ایمرجنسی ہو ہم خدا اور رسول کو بھلا کر ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ اللہ کریم ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔

ہم صبح و شام ناپ تول میں ہیرا پھیری کرتے ہیں لیکن ہمیں قبر کا کوئی خوف نہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ لوگ پاکستان سے حج عمرے کرتے ہیں اور ہماری لاکھوں بیٹیاں اس لیے بالوں میں چاندی لیے بیٹھی ہیں کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ادویات تک میں ہم ملاوٹ کرتے ہیں اور پوری قوم کو صبح و شام  نیکی کا بھاشن دیتے نہیں تھکتے۔

ہم منتظر ہیں ناجانے کب خدا امریکہ کو تباہ کر دے گا یا دنیا کے سارے عیسائی یہودی مارے جائیں گے۔ او بھائی لوگو!  ایسا نہیں ہو تا اور نہ کبھی ہوا ہے اپنے کرتوت دیکھو کیا اس قابل بھی ہیں کہ اپنے آپ سے بھی آنکھ ملا سکیں۔ کبھی ان عیسائی یہودی لوگوں کے ملکوں میں جا کر دیکھو کہ انہوں نے کس طرح کا نظام اپنے ہاں نافذ کر رکھا ہے وہاں کرسمس سے پہلے اشیا سستی کر دی جاتی ہیں، وہاں جعلی ادویات کی فروخت کا کوئی تصور نہیں ہے وہاں مزدور کو اس کا پورا معاوضہ اس کا پسینہ خشک ہونے سےپہلے مل جاتا ہے۔

ہمارا ہر معاملے میں منافقانہ رویہ ہے کیونکہ ہم کبھی سچ نہیں بولتے۔ نہ ہمارے لیڈر سچ بولنا جانتے ہیں اور نہ ہی ہم سچ بولتے ہیں۔ ہم اپنی برائی کا ذمہ دار دوسرے کے عمل کو قرار دیتے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اس نے اپنی قبر میں اپنے اعمال کا ہی جواب دینا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا یقین کمزور ہے۔ خدا رسول سے اگر ہم کو ذرا سی بھی محبت ہوتی تو ہم ناپ طول میں گڑبڑ نہ کرتے، ہم دوسرے کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر چیز مہنگی فروخت نہ کرتے، تہواروں پر اشیا خوردنی مہنگے داموں نہ بیچتے، ذخیرہ اندوزی نہ کرتے۔

ہمارے ایک سینئر صحافی دوست احمد شیخ جو برس ہا برس یورپ میں رہے گزشتہ روز ہمارے گھر تشریف آئے تو مہنگے ٹماٹروں کی بات ہو رہی تھی جو 300 روپے کلو تک فروخت ہوتے رہے تھے۔ احمد شیخ صاحب نے مجھے اور فاطمہ کو بتایا کہ جب وہ لندن میں تھے تو ایک اتوار کو کسی نے ان کے گھر کا دروازہ کھٹکٹایا تو انہوں نے انتہائی بےزاری کے ساتھ دروازہ کھولا کیونکہ اتوار کی چھٹی کے روز وہاں کسی کو اس طرح تنگ کرنا مناسب نہیں خیال کیا جاتا۔

سامنے دو خواتین تھیں جنھوں نے بتایا کہ وہ کنزیومرز ایسوسی ایشن طرف سے آئی ہیں اور انہوں نے ایک لسٹ تھمائی کہ ان اشیا کا بائیکاٹ کرنا ہے کیونکہ ان کے بنانے والوں نے ریٹس میں اضافہ کر دیا ہے۔ میں نے وہ لسٹ دیکھی تو معلوم ہوا کہ معمولی سا اضافہ تھا۔

خیر  بائیکاٹ کی وجہ سے شام تک وہ تمام اشیا کے ریٹ گرنے کی وجہ سے لوگ تقریبا مفت اٹھا لے گئے۔ یہ ہے ان آزاد اقوام کا چلن اور رویہ جن کی وجہ سے وہ دنیا پر آج حکومت کر رہے ہیں اور ہم لوگ ان ممالک کے ویزوں کے حصول کے نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں لیکن کاش ہم خود اپنے رویے تبدیل کر لیں۔

دو نمبر طریقوں سے باہر جانے کے لیے پیسے کمانے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے آپ کو بہتر کر لیں اس ملک کو سنواریں. بڑی عید کے بعد پیاز، ادرک، لہسن اور ٹماٹر کی قیمتوں کو گویا پر لگ گیے اور لگتے بھی کیوں نہ اونٹ، بھینسوں اور بکروں چھتروں کی گوشت سے ہمارے ڈیپ فریزرز اور فریج لبالب بھرے ہوئے ہیں۔

مٹن پلاؤ، بریانی، کڑاہی گوشت، تکے کباب وغیرہ کھانے کے لیے پیاز ٹماٹر لہسن اور ادرک تو چائیے نا اس لیے یار دوستوں نے شارٹ کٹ طریقے سے پیسہ بنانے کے لیے عید سے پہلے ہی ان کو ذخیرہ کر لیا اب مہنگے داموں فروخت کر کے گاڑی کا اگلا ماڈل لیں گے، فون چینج کریں گے اپنے بیوی بچوں کو شاپنگ کروائیں گے اور کیا..... خدا دیکھ رہا ہے ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا یہ سوچنے کی کسے فکر ہے لیکن ہماری روزمرہ گفتگو میں انشااللہ، ماشااللہ، جزاک اللہ الفاظ ایسے سننے کو ملتے ہے جیسے ہم سے زیادہ مطمئن قوم اس روِئے زمین پر نہیں ہے۔ہمیں اپنی اداؤں پر خود ہی غور کرنا چاہیے۔

سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے دو ماہ قبل پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی تھی جس کو خاصی کامیابی ملی. لیکن اس مرتبہ یہ مہم ناکام ہو گئی ہے کیونکہ ہم نے اپنے گوشت سے بھرے ڈیپ فریزرز بھی تو خالی کرنے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ننگ دیں، ننگ وطن اور بے حمیت ذخیرہ اندوز اپنی اپنی قبروں کو جہنم کے شعلوں سے بھرنے میں لگے ہیں۔

ان لوگوں کا قلع قمع کرنے کے لیے سارے معاشرے کو ایک ہونا ہو گا۔ دس دن بائیکاٹ کر دیں یہ سارے ذخیرہ اندوز سڑکوں پر مارے مارے پھریں گے لیکن افسوس ہم ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ہم ایک نہیں ہیں۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر  پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں  بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔