مصنوعی ذہانت، ایک دودھاری تلوار

مصنوعی ذہانت کے میدان میں ہونے والی ترقی حقیقت میں ذہن کو چکرا دینے والی پیش رفت ہے۔ ڈاکٹر رے کروزویل(Dr. Ray Croswell)جو کہ مستقبل کی پیش گوئی کے حوالے سے ایک معتبر نام ہیں، کا کہنا ہے کہ 2045ء تک ہم(state of singularity)تک پہنچ جائیں گےجب مشینیں عقل اور جدت طرازی میں انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گی۔

اب انسانی تاریخ کا ایک اہم موڑ آگیا ہے۔ کروزویل کی ماضی کی پیش گوئیاں86 فی صد درست ثابت ہوئی ہیں۔کروزویل کے مطابق یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور مصنوعی ذہانت ہمارے دماغ کو الیکٹرانک سرکٹ سےمنسلک کردے گی جو جسمانی خلیوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہونگے۔ 2030ء کی دہائی تک ہم انسانی دماغ اور شعور کو الیکٹرونک میڈیم سے نقل کرنے کے بھی قابل ہوجائیں گے۔

ایک مکمل عمیق تخلیق (Virtual Reality) کے بعد عام دفاتر کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی اور لوگ دفتر نہیں جائیں گے بلکہ گھر بیٹھے تصور میں آفس میں محسوس( telecommunicate) کریں گے یعنی سر پرایک آلہ نصب کرلیں گے جسں سے آفس کا ماحول پیدا ہو جائے گا اور ہزاروں میل دور سے لوگ ایک میز کے اطراف بیٹھ کر گفتگو کرسکیں گے۔یہ ایک تصوری آفس ہوگا۔اس کے نتیجے میں دنیا سے شہروں کا پھیلاؤ ختم ہوجائے گا کیونکہ لوگوں کو ملازمت کے لئے دوسرے شہروں میں جانےکی ضرورت نہیں پڑے گی۔

کیمبرج سے تعلق رکھنے والے ماہر طبیعات اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق ’مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانی نسل کے خاتمے کا سبب بنے گی اور یہ زیادہ ذہین، ارتقاء پذیر مشینوں سے تبدیل ہو جائے گی۔ اس ارتقا میں یہ اہم سوال ہے کہ کیا مشینیں ازخود کچھ سیکھ سکتی ہیں اور اپنی ذہانت اور فہم میں اضافہ کرسکتی ہیں؟ یہ بھی مصنوعی ذہانت کی ایک شاخ سے منسلک ہے جس کو (learningunsupervised) کہا جاتا ہے اور اب یہ میدان تیزی سے وسعت پذیر ہے۔

AI کی زیادہ تر کمپنیوں میں الگورتھم پر انحصار کیا جاتا ہے جو کہ مشینوں کو انسانوں کے ذریعے ہی سکھایا جاتا ہے کہ کسی چیز کا ادراک کس طرح حاصل کیا جائے اور جو کچھ وہ سیکھ رہے ہیں ان کو کس طرح پیش کیا جائے۔یہ ایک سست اور تھکا دینے والا عمل ہے اور اس میں انسانی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اسرائیل کی ایک کمپنی کورٹیکانے حال ہی میں ایک نظام تیار کیا ہے جس کی مدد سے مشینیں بغیر کسی انسانی رہنمائی کے سیکھنے، درجہ بندی کرنےاور چیزوں کی نمائندگی کرنے کے قابل ہو رہی ہیں۔

اسرائیل جدت طرازی میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہو گیا ہے، اور اب امریکہ اور چین کے بعد نیو یارک اسٹاک ایکسچینج کی فہرست میں اسرائیلی کمپنیاں سرفہرست ہیں اور ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ان کمپنیوں میں سے پچیس فی صد Techion (اسرائیلی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) کے اساتذہ اور طلبا کے قائم کردہ ادارے ہیں۔

اپنے ارد گرد کی چیزوں کو دیکھنے، پہچاننے اور ان کو ماضی کی معلومات سے جوڑنے کی صلاحیت کا عمل (جو کہ سیکنڈ کے ایک چھوٹےسے حصے میں وقوع پذیر ہوتا ہے) میں وسیع پروسسنگ شامل ہوتی ہے۔ ہم اپنی آنکھوں کے پپوٹوں کو جتنی دفعہ حرکت دیتے ہیں ہماری آنکھ کے پیچھے موجود(receptors)حرکت میں آتے ہیں۔

بصری شبیہہ برقی سگنل میں تبدیل ہوتاہے اور پھر یہ سگنل ہمارے دماغ کے پچھلے حصے کو منتقل کئےجاتے ہیں جہاں یہ اس شے کی جسامت، شکل، گہرائی، اور رنگ کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ ہمارے سامنے آنے والی ہر شے کا اسی طریقے سے موازنہ کرتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہم چیزوں کو دیکھنے اورسمجھنےکے قابل ہوتے ہیں اور ان کے افعال کا تعین کرتے ہیں۔

یہ عمل ایک سیکنڈ میں کئی دفعہ ہوتا ہے جب ہم ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہیں۔ ذہن کو حیران کردینے والا یہ عمل اب مشینوں میں مصنوعی طور پر تیار کیا جا رہا ہے، جو کہ آنے والے کل میں روبوٹس کی تیاری کے حوالے سے ایک بڑا قدم ہوگا۔

اپنی ان کوششوں میں کورٹیکا (Cortica)تنہا نہیں ہے۔ بے شمار دوسری کمپنیاں ایسی مشینیں تیار کرنے کی کوشش کررہی ہیں جو کہ انسانی آنکھ کی طرح چیزوں کو دیکھ کر انہیں شناخت کرسکیں۔یہ ایجاد کئی جگہ اطلاق ہوتی ہے جس میں سیکورٹی کیمرے، خود کار مشینیں، سیٹلائٹ سے تصاویر، طبی تشخیص، عسکری روبوٹ اور خودکار صنعتیں شامل ہیں۔

جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ مصنوعی ذہانت انتہائی تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا میدان علم ہے، توقع کی جارہی ہے کہ آنے والی چند دہائیوں میں یہ پڑھنے، لکھنے اور جذبات کے اظہار کی صلاحیت کے حصول کے بعد انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ دے گی۔

ماہرین اس بات پریشان ہیں کہ جلد ہی یہ صورت حال ہو جائےگی کہ انسانوں اور روبوٹ میں فرق کرنامشکل ہوجائے گا اورپھر ڈریہی ہے کہ روبوٹ انسانیت کوتباہ نہ کردیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف ایتھکس اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کےڈائرکٹر جیمز حیوز (James Hughes)کے مطابق انسانوں کی اہم ترین خوبیاں باشعور ہونا اور خود شناسی ہے۔جتنا جلد مشین یہ صلاحیت حاصل کرلے گی وہ فردکا مقام حاصل کرلے گی۔ہم شعورکی تعریف کیسے کریں گے؟ یہ آج کل اس میدان کے ماہرین کے درمیان گفتگو کا اہم موضوع ہے ہم ایک ایسی مخلوق کے ساتھ کس طرح کا سلوک کریں گے جو کہ ایک بالکل مختلف مادے سے بنی ہے لیکن کئی حوالوں سے ہماری جیسی ہے اور وہ ہمارے معاشرے میں کس طرح شامل ہوگی؟ یہ اس وقت کے اہم سوالات ہیں۔

مصنوعی ذہانت کے بہت سے استعمال سامنے آچکے ہیں۔ گوگل نے حال ہی میں ایک ملازمت دلانے کی تلاش کا طریقہ متعارف کرایا ہے جو AIپر تیار کیا گیا ہے۔یہ کسی فرد کو مختلف ویب سائٹ پر جائے بغیر اس کی ترجیح کے مطابق ملازمت کی تلاش میں معاونت فراہم کرے گا۔یہاں تک کہ اس میں کسی ایپ(App) کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔اس میں متعلقہ فرد کو صرف’’ job near to me‘‘یا ’’writing jobs’’یا’’ teaching jobs‘‘وغیرہ ٹائپ کرنا ہوگا۔اس کے نتیجے میں نئی نوکریوں کا widget نمودار ہوگاجس کے ساتھ بے شمار نوکریاں جومختلف جگہوں پرموجودہیں جن میں فیس بک، لنکڈان، شامل ہیں ظاہر ہوجائیں گے۔

AIکا ایک اور اہم اطلاق بڑے اداروں کو ہیکرزسے محفوظ کرنا بھی ہے ایک اور میدان جس میں اس ٹیکنالوجی کا اطلاق ممکن ہے وہ نیورو سائنس ہے، نیورو سائنس اس وقت تیزی سے ترقی کرتا ہوا میدان ہے۔ڈاکٹر واٹسن کے مطابق ’’دماغ، حیاتیاتی سرحدوں کا آخری بڑاچیلنج ہے، یہ ہماری کائنات میں اب تک دریافت ہونے والی اشیا میں سب سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہمارا دماغ سینکڑوں ارب خلیات پر مشتمل ہے جو کہ کھربوں جوڑوں سے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ دماغ کا مطالعہ ذہن کو چکرا دیتا ہے۔

یہ میدان مجھے بہت متاثر کرتا ہےکیونکہ سوچیں abstractنہیں ہوتیں بلکہ یہ مادی ہوتی ہیں۔یہ ایٹم اور مالیکیلولز پر مشتمل ہیں اور ہم نے یہ تصور کیا ہے کہ یادداشتیں خاص پیٹرن پر بنتی ہیں جو کہ تیز رفتار عمل ہے جس کو ’ہائیڈروجن بانڈنگ‘ کہا جاتا ہے کے ذریعے تشکیل پاتی ہیں۔ جب آپ چائے کا کپ اٹھانے کے لے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تودماغ سے نکلنے والا حکم دوسری منتشر سوچوں سے مختلف انداز میں کام کرتا ہے اور تیزی سے یہ شناخت کرتا ہے کہ آپ نے کیا حکم دیا ہے۔

اب ایسی ٹوپیاں ایجاد ہوگئی ہیں جس میں برقی آلے لگے ہوتے ہیں جوان خیالی احکامات کو باآسانی پہچان سکتے ہیں۔ اس قسم کی برقی ٹوپیاں اب تجارتی پیمانے پر بازار میں موجود ہیں اور ان کومکمل معذور افراد استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ معذور افراد ایسی وہیل چیئر جس میں ایک کمپیوٹر اور موٹر لگی ہو اُس کو صرف خیالی احکامات سے چلاسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ انتہائی بھیڑ والی سڑک پر آرام سے اپنی کار خیالی احکامات کے کنٹرول کے ذریعےچلا سکتے ہیں اب ایسے آلات تیار بھی کئے جارہے ہیں جو آپ کے دماغ سے منسلک ہوں گی اور یہ نہ صرف آپ کے سوچنے کی صلاحیت میں اضافہ کردیں گے بلکہ آپ کےدماغ میں لاکھوں کتابوں کی معلومات فراہم کر دیں گے۔

اس طرح مزید صلاحیتوں کی حامل ایک نئی انسانی نوع وجود میں آئے گی۔پاکستان اس ابھرتے ہوئے میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے اور یہ ہمارے دفاع کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ آنے والے وقت میں جنگیں انسانوں کے ذریعے نہیں بلکہ کمپیوٹر اور ربوٹ کے ذریعہ لڑی جائیں گی۔


یہ کالم اس سے قبل روزنامہ جنگ میں اتوار یکم اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔