بلاگ
Time 05 اکتوبر ، 2017

میں گلستانِ جوہر نہیں جاؤں گی!

کراچی پاکستان کا یوں تو سب سے بڑا اور’ با شعور‘ شہر ہے جس میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام انجام دیتی ہیں، ہر کام میں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ اسکول سے لے کر دفتر جانے تک سبھی خواتین کو باہر نکلنا ہوتا ہے ۔

ان خواتین کو جہاں بہت سے مسائل درپیش ہیں وہیں آج کل ایک اور مسئلے نے پریشان کررکھا ہے جو میرے نزیدک نہایت قابلِ مذمت ہے۔ ایک درندہ صفت انسان ،معصوم لڑکیوں کو سر راہ چاقو سے زخمی کرکے فرار ہوجاتا ہے۔ا س کا یہ عمل خوف و ہراس پھیلا رہا ہے۔ یہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ کیا چاہتا ہے ؟ اس کی درندگی کا نشانہ بننے والی خواتین بھی یہ نہیں جانتیں کہ وہ نشانہ کیوں بنیں ؟

صورتحال بہت تشویشناک ہے نا پکڑ میں آتا ہے نا سمجھ میں۔ ایسے میں خواتین اپنے کام کاج چھوڑ کر گھر بھی نہیں بیٹھ سکتیں۔ آدھا مہینہ ہونے پر آیا ہے کہ یہ چھلاوا پکڑانہیں جا رہا اور میرے خیال میں جیسے حالات چل رہے ہیں ، یہ پکڑا بھی نہیں جائے گا۔

یہاں کئی سوالات اٹھتے ہیں مثلاً وہ ایسا کیوں کر رہا ہے ؟ ایک مخصوص حلقے میں وارداتیں کرنے کے باوجود اسے پکڑنے کی اب تک خاظر خواہ کوششیں کیوں شروع نہیں  ہوسکیں ۔ پھر وہ خواتین ہی کو کیوں اذیت دے رہا ہے؟

میرے ذہن میں کچھ نکات اٹھ رہے ہیں کہ یا تو وہ محبت کے ہاتھوں شکست خوردہ ہے، یا ایسا نفسیاتی مریض جو ایسا کرکے خود کو تسکین پہنچا رہا ہے۔ یا پھر یہ کسی کا بدلہ کسی سے لے رہا ہے۔ اس کا یہ اقدام کسی رشتے سے بد ظن انتقامی آگ کی تپش کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے جو دوسری بے قصور خواتین جھیل رہی ہیں۔

وجہ جو بھی ہو اب یہ سلسلہ بند ہو جانا چاہئے اور پولیس کو اس مسئلے میں اپنا مثبت اور با اثر کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس کا اقدام ایک صحت مند معاشرے اور خواتین کی آزادی کی موت ہے۔

گلستان جو ہر کا اب نام سنتے ہی دل کانپ اُٹھتا ہے اور میرے خیال میں میری طرح کی اب کراچی کی ہزاروں لڑکیاں یہ سوچنے پر مجبور ہوں گی کہ میں’ گلستانِ جوہر نہیں جاؤں گی۔‘


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔