کرپشن اور سرکاری اداروں کا گٹھ جوڑ

ملک میں بدعنوانی اور اختیارات کا ناجائز استعمال نظام کی تباہی کا باعث بن چکا ہے اور یہی کرپشن آئین میں موجودہ قوانین پر عمل درآمد میں بڑی رکاوٹ ہے۔

ملک میں عوام کو بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کی بڑی وجہ بھی یہی کرپشن اور اس سے جڑی سوچ اور نظریے ہیں۔

جہاں دہشت گردی کو کرپشن کے باعث فروغ ملا وہیں ملک میں نظام حکومت، اداروں اور قوانین کو ناکام کرنے میں کرپشن اور بدنیتی نے اہم کردار ادا کیا۔

کراچی بدامنی کیس کی سماعتوں کے دوران کئی مرتبہ مختلف اداروں کےسرکاری افسران سمیت وکلاء اور سماجی شخصیات کی جانب سے یہ بات ریکارڈ پر لائی گئی کہ شہر میں بےامنی اور دہشت گردی کے پیچھے اداروں کی غفلت خاص طور پر پولیس میں سیاسی مداخلت اور کرپشن سے حاصل غیر قانونی پیسہ ہے۔

قتل و غارت گری، دہشت گردی، بھتہ خوری، زمینوں پر قبضہ، غیر قانونی ہائیڈرنٹ اور واٹر ٹینکر، اسلحہ اور منشیات کی فروخت اور اداروں میں سیاسی مداخلت کی باقاعدہ نشاندہی اور شواہد بھی پیش کیےگئے۔

ان سب عوامل کے پیچھے یہ بات واضح طور پر محسوس کی گئی کرپشن کا کینسر خاص طور پر سرکاری اداروں میں جڑوں تک سرایت کرچکا ہے۔ان سرکاری اداروں میں وہ تمام ادارے شامل ہیں جوعوام کے ٹیکس سے بنے سرکاری خزانے سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔

میرے نزدیک یہ کہنا کہ کوئی ادارہ کرپشن سے پاک ہے، بہت مشکل ترین کام ہے،  کیونکہ انصاف جانچنے کا پیمانہ بہت سخت ہے۔

نیب کے اپنے ریکارڈ کے مطابق اس کے اپنے ادارے کے افسران بھی کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں اور اعداد شمار میں سرکاری ملازمین کرپشن میں سرفہرست ہیں اور کرپشن انکوائریز، تحقیقات اور ریفرنسز میں ان کا تناسب 70 فیصد سے زائد ہے۔

معروف قانون دان جسٹس وجیہہ الدین احمد کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے بارے میں جس کا تعلق سرکار سے رہا ہو، یہ دیکھنا ہے کہ بندہ دیانتدار ہے یا غیر دیانتدار ہے تو اس کی ایک کسوٹی ہے۔وہ یہ ہے کہ اس کے اور اس کے خاندان کے افراد کے اثاثے کیا ہیں۔

اس عدسے سے دیکھیں تو یقین ہے کہ بڑے عہدوں پر بیٹھے کئی سیاستدان، بیوروکریٹس سمیت جج صاحبان بھی اس کسوٹی پر پورا نہیں اترسکیں گے۔ان کو وہاں سے ہٹا کر احتساب ہونا چاہیے۔ان تمام عیبوں کو ختم کرنا ریاست کا کام ہے اور ریاست یہ کام آئین کے تحت اداروں سے لیتی ہے۔

موجودہ دور میں سرکاری افسران کی تنخواہوں کا موازنہ کیا جائے تو گریڈ ایک سے گریڈ 22 تک کے ملازمین کی تنخواہیں، الاؤنسز اور سہولتیں خاصی بہتر اور معقول ہیں۔

سرکاری اداروں میں کام کرنے اور قوانین پر عمل درآمد کرانے والے ملازمین اپنا فرض ایمانداری سے انجام دینے کا عہد کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے گزشتہ دہائیوں میں کرپشن کا زہر بیشتر اداروں میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔

صوبہ سندھ میں محکمہ خزانہ، بورڈ آف ریونیو، پولیس، تعلیم، صحت، پبلک سروس کمیشن، آبپاشی، خوراک، کوآپریٹو سوسائٹی، ورکس اینڈ سروسز سمیت دیگر محکموں میں کرپشن کی جڑیں سب سے زیادہ مضبوط ہوئی ہیں۔

کم و بیش یہی صورت حال بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بھی ہے۔پنجاب میں کرپشن کے معاملات کو وفاقی حکومت کا بھی سہارا مل جاتا ہے اور ایک طرف کی کرپشن کو دوسرے حصے سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔

جب ریاست کے ادارے ہی کرپشن کا مرکز بن جائیں تو انصاف کی بنیاد پر فیصلے اور مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔کرپشن کا سرکاری اداروں میں جائزہ لینا ہے تو سرکاری افسران کے طرز رہائش اور ان کے چند سالوں کے اثاثوں کو دیکھا جانا چاہیے، شفاف تحقیقات کے ذریعے خاصی حد تک بے ایمان اور ایماندار افسران کی گروہ بندی کی جاسکے گی۔

اگر کرپشن کو ختم کرنے کی نیت صاف ہے تو موجودہ احتسابی اداروں سے سب سے پہلے سرکاری افسران کے اثاثوں کی انکوائری کرالی جائے ۔اس عمل میں وہ تمام عوامل واضح ہوجائیں گے جن کی وجہ سے کرپشن کو سسٹم کا حصہ تسلیم کیا جانے لگاہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔