بلاگ
Time 10 اکتوبر ، 2017

الگ تشخص کی مصیبت

خیبر پختونخوا میں فاٹا کے ادغام کا معاملہ کئی حوالوں سے عجیب اور منفرد ہے۔ سوائے دو بندوں کے پوری قوم حامی ہے۔ لیکن پھر بھی فاٹا اور خیبر پختونخوا کو مدغم نہیں کیا جا رہا۔

یہ واحد سیاسی معاملہ ہے جس پر مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی، اے این پی اور قومی وطن پارٹی غرض تمام بڑی جماعتیں ایک صفحہ پر ہیں لیکن پھر بھی فاٹا کو پختونخوا میں مدغم نہیں کیا جا رہا۔ اسی طرح یہ واحد معاملہ ہے جس کے لئے کمیٹی خود میاں نواز شریف نے اپنے رفیق عزیز یعنی سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں بنائی تھی لیکن ان کی حکومت اپنی کمیٹی کی سفارشات کو عملی شکل نہیں دے رہی۔

قبائلی نوجوانوں کا خود اٹھ کر پختونخوا کے ساتھ ادغام کی تحریک دنیا کی انوکھی اور منفرد تحریک یوں ہے کہ کردستان سے لے کر ناگالینڈ تک دنیا کے مختلف خطوں میں اس وقت جو تحریکیں چل رہی ہیں وہ اس ملک سے الگ ہونے کے لئے چل رہی ہیں لیکن قبائلی عوام اور نوجوانوں کی یہ تحریک واحد تحریک ہے کہ جو پاکستان کے وجود کا مکمل حصہ بننے کے لئے چلائی جا رہی ہے۔

قبائلی عوام 70 سال قبل خود اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے تھے اور ان کا مطالبہ فقط یہ ہے کہ انہیں آئینی، انتظامی، سیاسی اور مالی حوالوں سے بھی پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے۔

اسی طرح فاٹا کے ادغام کا معاملہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا معاملہ ہے کہ خود جس حکومت کی وفاقی کابینہ نے سفارشات کی منظوری دی ہے، وہی حکومت اپنی کمیٹی کی، اپنی کابینہ سے منظور کردہ سفارشات پر عمل نہیں کر رہی۔

مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کے قادر الکلام ہونے کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ دلیل تراشنے میں اتنے ماہر ہیں کہ رات کو دن اور دن کو رات ثابت کرسکتے ہیں لیکن فاٹا سے متعلق ان دونوں کے موقف کی منطق بھی کسی کو سمجھ نہیں آرہی۔ 

وجہ اس کی یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے پسند کیا ہے، وہ قبائلی پختونوں کے بچوں کے لئے پسند نہیں کرتے۔ مولانا اپنے خاندان اور پارٹی سمیت پختونخوا کا اور جبکہ اچکزئی صاحب اہل خانہ و اپنے قبیلے سمیت بلوچستان کا حصہ بن چکے ہیں لیکن فاٹا والوں کو الگ تشخص کے نام پر ان آزادیوں اور جمہوری حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں جن سے وہ خود اور ان کے بچے مستفید ہو رہے ہیں۔

میاں نواز شریف کی سیاسی غلطیاں بھی بے شمار ہیں لیکن میرا عقیدہ ہے کہ ان کو معصوم قبائلی عوام کی بددعا بھی لگ گئی ہے جس کی وجہ سے آج وہ اور ان کی اولاد اقتدار سے محروم اور عدالتوں کو مطلوب بن گئے اور مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میرے محترم مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی کو بھی معصوم قبائلی پختونوں کی بددعا نہ لگ جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کا نظام پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگ جس بدترین غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، اس کی اس مہذب دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن دل بہلانے کے لئے ان کو ’’آزاد قبائل‘‘ کا بڑا دلفریب نام دیا گیا ہے۔

فاٹا کو مدغم کرنے میں سنجیدہ میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی نہیں ہیں لیکن میدان میں مولانا اور اچکزئی صاحب کو اتارا گیا ہے اور وہ دونوں تزک و احتشام کے ساتھ ان کی پراکسیز کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ بریگیڈئیر اور چند ریٹائرڈ بیورو کریٹس کی بھی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں۔

اصل معاملہ ڈویزیبل پول سے چھ فیصد حصہ قبائلی علاقوں کو دینے کا ہے جو اس وقت مسلم لیگ نون کی قیادت دینا نہیں چاہتی۔ اس لئے نواز شریف صاحب انگریز کے ایف سی آر کے نظام کو برقرار رکھنے کے لئے انگریز کی پالیسی لڑائو اور حکومت کرو پر عمل پیرا ہیں۔ اصل رکاوٹ گورنر ہیں جو اپنی بادشاہت ختم کرنا نہیں چاہتے۔

اسی طرح اصل رکاوٹ وزیر سیفران ہیں جو سمجھتے ہیں کہ فاٹا کا اختیار بھی ان کی وزارت سے صوبے کے پاس چلا گیا تو پھر ان کی وزارت کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ یوں گورنر اور وزیر بظاہر حامی لیکن اندر سے اصل رکاوٹ ہیں۔ رکاوٹ ڈالنے والوں نے قبائلی عوام کو گمراہ کرنے کے لئے نعرہ بھی بڑا دل خوش کن یعنی قبائل کا ’’الگ تشخص‘‘ تراشا ہے لیکن یہ ’’الگ تشخص‘‘ ہی تو مصیبت کی جڑ ہے۔ تشخص تو مولانا کا سب سے الگ ہے۔

منفرد لباس۔ منفرد جبہ۔ منفرد دستار۔ اس پر منفرد رنگ کی چادر۔ منفرد طرز کلام۔ وہ سندھی آصف زرداری کے ساتھ بھی چل سکتے ہیں اور پنجابی میاں نواز شریف کے ساتھ بھی لیکن وہ دنیا کو باور کرا رہے ہیں کہ شہاب الدین خان اور حاجی شاہ جی گل کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں جو پرویز خٹک اور اسفندیارولی کے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔

اسی طرح اچکزئی صاحب کا لباس الگ، طرز سیاست الگ، طرز کلام الگ حتیٰ کہ پاکستان اور افغانستان سے متعلق ان کی سوچ اور اپروچ بھی الگ۔ اب وہ تو پنجابی نوازشریف کے دست راست بن سکتے ہیں لیکن پختون قبائلیوں کے بارے میںکہتے ہیں کہ اگر وہ پشاور، چارسدہ، کوہاٹ اور ٹانک کے پختونوں کے ساتھ مل گئے تو قیامت آجائے گی۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے شینواری قبائل کی طرح کے افغان سائیڈ کے شینواری قبائل ننگرہار صوبے کا حصہ ہیں اور اسی نظام کے تحت زندگی گزاررہے ہیں جس کے تحت کابل کے شہری گزار رہے ہیں۔

اسی طرح جو وزیراور دائوڑ افغانستان کی طرف بستے ہیں وہ پکتیا اور پکتیکا صوبوں کا حصہ ہو کر دیگر اقوام کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح مہمند اور صافی قبائل سرحد کی دوسری طرف کونڑ اور ننگرہار صوبوں کا حصہ ہیں۔ مولانا اور اچکزئی صاحب سرحد کے اس پار تو قبائل کے الگ تشخص کی آڑ لے کر ان کے لئے تو الگ صوبے کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں لیکن ستر سال قبل پاکستان کا حصہ بننے والے پاکستانی قبائلیوں کے بارے میں الگ تشخص کے نام پر ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ کہ اگر فاٹا کو پختونخوا میں ضم کیا گیا تو افغانستان قیامت برپا کردے گا حالانکہ آج سے چار سال قبل افغان صدر حامد کرزئی، سابق صدر زرداری کے ساتھ برطانیہ کی ثالثی میں چیکر کانفرنس کے سربراہی اعلامیہ میں بارڈر مینجمنٹ پر متفق ہوچکے ہیں۔

بھاڑ میں جائے فاٹا کا یہ الگ تشخص۔مولانا کے آبائو اجداد نے الگ تشخص ختم کرکے اپنے آپ کو پختونخوا کا حصہ بنا دیا تو نتیجتاً مولانا مفتی محمود مرحوم پختونخوا کے وزیراعلیٰ بن گئے اور خود مولانا پورے پاکستان کے لیڈر ہیں جبکہ اس الگ تشخص کی وجہ سے قبائلی اپنے علاقے کا انتظامی سربراہ بن سکتا ہے اور نہ وزیراعلیٰ۔ قبائل کو کبھی پشاور کے اقبال جھگڑا کی حاکمیت قبول کرنی پڑتی ہے اور کبھی دوسرے صوبے سے آئے ہوئے امیر گلستان جنجوعہ کی۔

الگ تشخص قربان کرکے بلوچستان کا حصہ بن جانے کی وجہ سے آج محمود خان اچکزئی کے ایک بھائی گورنر، دوسرے سب سے طاقتور وزیر اور خود وہ قومی سطح کے لیڈر ہیں جو چمن سے سینکڑوں میل دورواقع فاٹا کے معاملات پر بھی ڈکٹیشن دینے کی پوزیشن میں ہیں لیکن اس الگ تشخص کی وجہ سے فاٹا کے منتخب ایم این ایز اپنے علاقوں کے لئے بھی قانون سازی نہیں کرسکتے۔اس الگ تشخص نے تو قبائلیوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔

خیبر پختونخوا کے اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں انہیں بوجھ سمجھا جارہا ہے۔ اسلام آباد، سندھ اور پنجاب میں ڈر کے مارے وہ کسی کو شناختی کارڈ نہیں دکھاسکتے کیونکہ قبائلی اور دہشت گرد ہم معنیٰ بنادئیے گئے ہیں۔ پختون قبائل کا اصل تشخص تو مہمان نوازی ہے لیکن اس ’’الگ تشخص‘‘ نے ان کو ایسا بے گھر اور بے در کردیا کہ خود تو مہمان نوازی کیا کرتے کبھی خیبر پختونخوا کی حکومت کے بے آسرا مہمان ہوتے ہیںاور کبھی سندھ اور پنجاب میں ٹھوکریں کھاتے ہیں۔

ان کا اصل تشخص تو یہ ہے کہ وہ آزاد رہتے اوردوسروں کی آزادی کے لئے(آزاد کشمیر اور افغانستان کی جنگ میں قبائل کا کردار کسی سےچھپا نہیں) میدان میں اترتے ہیں لیکن ’’اس الگ‘‘ تشخص نے ان کی آزادی یوں سلب کی کہ کبھی پولیٹکل ایجنٹ کی غلامی، کبھی طالبان کی غلامی تو کبھی سیکورٹی فورسز کی غلامی۔ ان کا تشخص تو یہ ہے کہ ان کی خواتین کی کبھی غیرمرد چادر بھی نہیں دیکھ سکتا لیکن اس ’’الگ تشخص‘‘ نے ان کی خواتین کوسالہا سال خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ ان قبائل کا تشخص توخودداری ہے لیکن اس ’’الگ تشخص‘‘ نے ان کو بھکاری بنا دیا۔ 

ان کا الگ تشخص یہ تھا کہ دولت،غم اور خوراک، غرض ہر چیز کو بانٹتے تھے لیکن اس ’’الگ تشخص ‘‘ نے چند ایک قبائل کو حد سے زیادہ امیر اور لاکھوں کو حد سے زیادہ غریب بنا دیا۔ ان کا تشخص تو یہ ہے کہ کچھ بھی ہوجائے لیکن وہ بِکنے اور جھکنے پر تیار نہیں ہوتے تھے لیکن اس ’’الگ تشخص‘‘ نے ان کو ضمیر فروش یوں مشہور کردیا کہ سینیٹ کاانتخاب ہویا قائدایوان کا انتخاب، ہر موقع پران کے ممبران پارلیمنٹ کی منڈی لگتی ہے۔ ان کا تشخص ہے کہ وہ کھرے اور سچے لوگ ہیں لیکن یہ ’’ الگ تشخص ‘‘ انہیں دوغلے پن اور منافقت کا درس دے رہا ہے۔

اس الگ تشخص نے دوغلے پن کو یوں عام کردیا ہے کہ آج قبائلی عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ کے اس فیصلہ کن مرحلے پر بھی فاٹا کے اکثر ایم این ایز اور سینیٹرز اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر نہیں ہوسکے۔ قبائلی نوجوانوں اور کیمروں کے سامنے وہ دن کو اصلاحات اور ادغام کے حامی نظر آتے ہیں لیکن حکمرانوں کے ساتھ خلوت کی مجلسوں میں وہ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی بنے ہوتے ہیں۔ دن کو حکومت مخالف اور رات کو حامی بنے ہوتے ہیں۔

ایم این اے بھائی ادغام کے حامی تو اس کا سینیٹر بھائی مخالف بنا پھرتا ہے۔ تحریک اٹھادی جاتی ہے اور پھر کبھی ایک ایم این اے سودے بازی کرلیتا ہے اور کبھی دوسرا سینیٹر۔ اصل کہانی یہ ہے کہ سینیٹ کے اگلے انتخابات کے لئے ابھی سے انتظامات کئے گئے ہیں۔ ایک سیاسی رہنما کے ساتھ درپردہ معاملات طے پاگئے ہیں۔

یہ طے پایا ہے کہ کس کس کو کتنے کتنے کروڑ ملیں گے اور کس کس کا بھائی سینیٹر بنے گا۔ اس لئے عوام کے ڈر سے تو یہ لوگ ادغام کے حامی ہیں لیکن درپردہ کبھی ایک بہانے سے اور کبھی دوسرے بہانے سے رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ’’الگ تشخص‘‘مزید قبائل کو نہیں چاہئے۔ وہ اب اسی طرح پاکستانی بننا چاہتے ہیں جس طرح شاہد خاقان عباسی پاکستانی ہیں، جس طرح مولانا فضل الرحمان ہیں اور جس طرح محمود خان اچکزئی پاکستانی ہیں۔اب یہ الگ تشخص الگ تشخص کا کھیل مزید نہیں چلے گا۔

ہر آزاد خیال قبائلی اور بالخصوص نوجوانوں کا یہ فیصلہ ہے کہ جو لیڈر خیبرپختونخوا کے ذریعے پاکستان کے ساتھ انضمام کی جدوجہد میں ساتھ دے گا، وہ اسے کاندھوں پر بٹھائیں گے اور جو رکاوٹ بنے گا، وہ کوئی بھی ہو، قبائلی انہیں اپنا دشمن سمجھیں گے۔ قبائلی نوجوانوں کو ہر ایک پر نظر رکھنی ہوگی۔ اگر فاٹا کے ساتھ آئینی طور پر مکمل انضمام، آئین کے آرٹیکل ون اور 247 میں ترمیم، ڈویزیبل پول میں حصہ اور اگلے انتخابات سے قبل صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے کم کوئی بھی قانون سازی ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت دھوکہ دے رہی ہے اور اگر کوئی قبائلی ایم این اے یا سینیٹر اس سے کم کسی قانون سازی پر راضی ہوتا ہے تو سمجھ لیا جائے کہ وہ حکومت کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے یا پھر وہ مولانا اور اچکزئی کے ساتھ ملا ہوا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔