بلاگ
Time 10 اکتوبر ، 2017

جرمن انتخابات، یورپی یونین کیلئے خطرے کی گھنٹی

— رائٹرز فائل فوٹو

جرمنی کے حالیہ انتخابات میں چانسلر انجیلا مرکل چوتھی مرتبہ اپنے عہدے پر برقرار رہنے میں کامیاب تو ضرور ہوئیں مگر اس مرتبہ مرکل کے سر سجی کامیابی کے اس تاج میں بہت سے کانٹے بھی موجود ہیں۔ مرکل کی کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی کے ووٹوں میں نمایاں کمی ہوئی۔ اسے33فیصد ووٹ حاصل ہوئے، یہ شرح 60 سال میں اس جماعت کی کم ترین شرح ہے۔

تاہم جرمنی کے انتخابی نتائج نے یورپ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لئے دلچسپی کا سامان اس لئے پیدا کیا کیونکہ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کی شکست کے بعد پہلی مرتبہ دائیں بازو کی ایک انتہا پسند جماعت ”اے ایف ڈی“ پارٹی بھی 13 فیصد ووٹ لے کر جرمن پارلیمنٹ کا حصہ بنی۔

اے ایف ڈی کو بنیادی طور پر جرمنی کی یونیورسٹیوں کے ایسے پروفیسروں نے قائم کیا تھا کہ جو یورپی یونین کے سخت مخالف تھے۔ اس جماعت کا یہ مطالبہ ہے کہ جرمنی کو دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے اپنے کردار پر معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے بلکہ اپنے ان سپاہیوں پر فخر کرنا چا ہیے کہ جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا۔ 

انتخابی مہم کے دوران اے ایف ڈی پارٹی اپنے آپ کو ”اینٹی اسٹبلشمنٹ“ پارٹی قرار دیتی رہی جس سے زیریں متوسط طبقات کے ووٹرز بھی اس جماعت کی جانب راغب ہوئے۔ اس جماعت کے امیدوار جرمنی میں موجود پناہ گزینوں کے خلاف سخت ریاستی کاروائی کی حمایت بھی کر تے رہے۔ انتخابی مہم میں اے ایف ڈی پارٹی کے اس مطالبے میں اتنی شدت رہی کہ جرمنی کی بڑی جماعتوں کو بھی جلسوں میں وعدے کرنے پڑے کہ اقتدار ملنے کی صورت میں پناہ گزینوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جا ئیں گے۔

جرمن اور یورپی میڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق اے ایف ڈی پارٹی نے جس جماعت کے سب سے زیادہ ووٹروں کو اپنی جانب راغب کیا وہ مرکل کی کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی ہی ہے۔ اس جماعت کے روایتی دس لاکھ ووٹروں نے اس مرتبہ اے ایف ڈی پارٹی کیلئے ووٹ دیا۔ ان انتخابات میں صرف کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی ہی نہیں بلکہ سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے بھی ووٹوں میں کمی ہوئی۔

جب کہ بائیں بازو کی جماعت لیفٹ پارٹی کے ووٹ بھی کم ہو ئے۔ یوں جرمنی کے حالیہ انتخابات سے ثابت ہوا کہ جرمن ووٹرز کی اکثریت جرمنی کی روایتی جماعتوں پر اپنا اعتماد کھو رہی ہے۔ جرمن سیاست، کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی اور سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے گرد ہی گھومتی تھی۔80 سے90فیصد ووٹ ان دونوں جما عتوں میں ہی تقسیم ہو تا تھا مگر ان انتخابات میں ان دونوں جما عتوں نے 53 فیصد ووٹ حاصل کئے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب بھی جرمنی میں معاشی حالات خراب ہوتے تو بائیں بازو کی جماعتیں اس موقع کا سیاسی فا ئدہ اٹھاتی۔ مگر حالیہ انتخابات کے اعداد و شمار سے ثابت ہو رہا ہے کہ اب سماجی حالات سے مایوس ووٹر اے ایف ڈی پارٹی جیسی انتہا پسند جماعت کا رخ کر رہا ہے۔

مشرقی جرمنی میں جہاں پر بائیں بازو کی جماعت لیفٹ پارٹی کا سیاسی غلبہ رہا ہے، اس مرتبہ مشرقی جرمنی میں بھی اے ایف ڈی پارٹی 22 فیصد ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہی۔ اس موقع پر یہ تقابل کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ1930 دہائی میں بھی جرمنی کے خراب معاشی حالات کا فائدہ بائیں بازو نے نہیں بلکہ ہٹلر کی نازی پارٹی نے ہی اٹھایا تھا۔

جرمنی کے انتخابات کا اگر اسی سال مئی میں فرانس میں ہونے والے انتخابات کے ساتھ تقابلی جائزہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ فرانس میں میکرون کے صدر بننے پر تجزیہ نگاروں نے یہ دعوی ٰ کیا تھا کہ میکرون جیسے معتدل رہنما کی جیت سے ثابت ہو گیا کہ یورپ میں کسی قسم کی انتہا پسندانہ یا پاپولسٹ سیاست دم توڑ رہی ہے۔ اور اب فرانس میں میکرون اور جرمنی میں مرکل مل کر یورپی یونین کو بحران سے باہر نکال لیں گے۔

یورپی یونین میں معاشی اور سیاسی اصلاحات کی جائیں گی۔ مگر اب جرمنی کے انتخابی نتائج سے ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ یورپی یونین ابھی بحرانی کیفیت میں ہی رہے گا۔ مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہونے پر مرکل کو لبرل فری ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی کی حمایت درکار ہے، جن کا یورپی یونین سمیت چانسلر مرکل سے کئی پالیسیوں پر سخت اختلاف ہے۔

اسی طرح اے ایف ڈی پارٹی کی اسمبلی میں موجودگی کے باعث مرکل کیلئے بہت زیادہ مشکل ہو گا کہ وہ یورپی یونین میں شامل کم معاشی حیثیت کے ممالک خاص طور پر یونان اور اسپین کو کسی بھی قسم کی رعایت دیں سکیں۔ اگر جرمنی نے یورپی یونین کو برقرار رکھنے کیلئے بھرپور معاشی کردار ادا نہ کیا تو یورپ کے کسی اور ملک میں اتنی سکت نہیں کہ وہ یورپی یونین کو اپنے دم پر سہارا دے سکے۔

جرمنی کی طرح یورپ کے کئی ممالک میں دائیں بازو کی انتہا پسند سیاسی جماعتوں کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ فرانس میں میکرون کی فتح کے باوجود نیشنل فرنٹ کی انتہا پسند لیڈر میرین لیپین نے فرانس کے انتخابات کے دوسرے راونڈ تک میکرون کا بھرپور مقابلہ کیا۔ آسٹریا میں انتہا پسند جماعت فریڈم پارٹی اقتدار میں شامل ہو نے جا رہی ہے۔ ہنگری کی انتہا پسند جما عت موومنٹ فار اے بیٹر ہنگری ملک کی تیسری بڑی جماعت بن چکی ہے، یونان میں نازی ازم کی حامی گولڈن ڈان جماعت تیسری بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے، سویڈن اور ڈنمارک جیسے ممالک میں بھی نازی ازم کی اعلانیہ حمایت کرنے والی جماعتیں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔

یہ تمام عوامل ظاہر کر رہے ہیں کہ یورپ میں معاشی اور سماجی بے چینی کا سیاسی فائدہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو ہی ہو رہا ہے۔ یورپ کی روایتی بائیں بازو کی جماعتیں جو سوشل ڈیموکریسی کی سیاست کی علمبردار رہیں وہ فکری طور پر بانجھ پن کا شکا ر ہوتی جا رہی ہیں اس لئے اس خلا کو اب دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں پورا کر رہی ہیں۔

گزشتہ دس، پندرہ سال سے جاری یہ رجحان اگر اسی طرح برقرار رہا تو عین ممکن ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں یورپ کے بعض ممالک میں اقتدار بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور اگر یہ مفروضہ درست ثابت ہوا تو اس سے صرف یورپی یونین ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست پر بھی بہت اہم اثرات مرتب ہوں گے۔


جیو نیوز یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔