ورجینیا کا لاہور اور ظہور ندیم

کہا جاتا ہے جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس روئے زمین پر لوگ ایک ہی لاہور کو جانتے ہیں جو ایک تاریخی شہر ہے اور شاہان مغلیہ کے دور میں پورے ہندوستان کا دارلحکومت بھی رہا۔اس کی تاریخی عمارتوں اور ثقافت کا کوئی جواب ہی نہیں اس شہر کے باسیوں کی زندہ دلی بھی دنیا بھر میں مشہور ہے۔

لیکن جناب جو بات میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ اس لاہور کے بارے میں ہے جو امریکی ریاست ورجینیا میں ہے اور تقریبا ڈیڑھ سو برس پہلے جیکسن فیملی نے اسے آباد کیا۔1850 میں انہوں نے برصغیر پاکستان و ہند پر ایک کتاب پڑھتے ہوئے اس نام کا انتخاب کیا۔ لاہور شہر کا نام 1857 کی جنگ آزادی کی تحریک میں برطانوی سامراج کے خلاف مقامی لوگوں کی جدوجہد کی وجہ سے  کافی خبروں میں تھا۔

یہاں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ رب کو لاہور اتنا پسند ہے کہ اس نے کئی سمندر پار ایک اور لاہور آباد کر دیا وہ بھی ایسے افراد کے ہاتھوں جنھوں نے کبھی لاہور کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ یہ لاہور ورجینیا کی اورنج کاؤنٹی میں واقع ہے۔ گذشتہ شب پنجاب یونیورسٹی ایگزیکٹو کلب میں احباب کی ایک محفل میں ورجینیا سے آئے ہمارے دوست ظہور ندیم نے اس لاہور کا ذکر کیا۔

ان کا تعلق ڈیموکریٹس سے ہے۔ امریکہ سے دوست آئے ہوں اور سیاست پر بات نہ ہو بھلا یہ کیسے ممکن تھا۔ ان سے بحیثیت ایک صحافی اور دوست کرید کرید کے سوالات پوچھے۔ ایک اہم بات انہوں نے بتائی کہ ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اپنی مدت پوری نہ کر سکیں ان کا مواخذہ کیا جا سکتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر ان کو سزا بھی ہوسکتی ہے کیونکہ امریکہ میں قوانین بہت سخت ہیں اور وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتے اور اسی دوران لاہور سے پچاس برس پہلے امریکہ جا کر آباد ہونے والے ابوالحسن نغمی کا ذکر بھی ہوا۔

وہ لوگ جو ساٹھ کے عشرے کے اوائل میں پانچ چھ برس کے تھےاور ریڈیو پاکستان لاہور سے بچوں کا مقبول ترین پروگرام ’بچوں کی دنیا‘ سنا کرتے تھے ان کے ذہنوں میں اس پروگرام کی آپا جان موہنی حمید اور بھائی جان ابوالحسن نغمی کی آوازیں بلا شبہ محفوظ ہونگی۔ یہ دونوں آوازیں جیسے لاہور ریڈیو کی شناخت بن گئی تھیں۔

چند ماہ پہلےفون پر گفتگو کے دوران  نغمی صاحب  نے مجھے بتایا کہ وہ رہے تو امریکہ میں لیکن انکا دل ہمیشہ لاہور میں بلکہ لاہور کے پرانے ریڈیو اسٹیشن میں رہا۔ ابوالحسن نغمی نے سنہری  یادوں کو اپنی کتاب"یہ لاہور ہے" میں محفوظ کیا ہے۔ انہی کے صاحبزادے نور نغمی نے ورجینیا کے لاہور کی ساری زمین خرید کر وہاں اونچے برجوں والے شہر لاہور کی ثقافت کو زندہ رکھنے کا تہیہ کیا ہے۔ نور کے مطابق وہ بہت جلد ورجینیا کے لاہور میں بسنت منائیں گے۔

ظہور ندیم نے بتایا کہ تیس پینتیس برس پہلے ایک صحافی اکمل علیمی غلطی سے اس سڑک پر مڑ گیے جہاں ورجینیا کا لاہور آباد ہے انہوں نے ڈیڑھ صدی پہلے کا لگا بورڈ دیکھا جس پر لاہور لکھا تھا تو وہ حیران رہ گیے۔ انہوں نے تحقیق کی اور روزنامہ امروز میں اس امریکی لاہور پر ایک مضمون لکھا جس سے چند لوگوں کو اس بارے میں معلوم ہوا۔ شروع شروع میں اکثر پاکستانی جب اپنا خط لاہور بھیجتے اور پاکستان لکھنا بھول جاتے تو وہ خط ورجینیا کے لاہور کے پوسٹ آفس پہنچ جایا کرتے۔

جیکسن فیملی تو اصل حقیقت سے آگاہ تھی اس  لیے وہ پاکستان لکھ کر پوسٹ کر دیتے۔ یہ بہت خوبصورت اور یادگار محفل تھی جس میں وطن عزیز کے نامی گرامی اساتذہ اکرام، صحافیوں، ادیبوں اور بیورکریٹس نے شرکت کی۔ ان میں مصور اقبال اسلم کمال، ڈاکٹر نجیب جمال جن کو حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نواز رکھا ہے، مشہور مزاح نگار اور ادیب ڈاکٹر وحید الرحمن خان، آصف انصاری، پروفیسر خالد ہمایوں، کاشف منظور، ڈاکٹر جاوید محمود، اعجاز الحق اعجاز، عاصم چوہدری، احمد زابر سعید اور دیگر نے شرکت کی۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ابوالحسن نغمی، نور نغمی اور ظہور ندیم جیسے پاکستانیوں نے پاکستان سے باہر اپنی ثقافت کو زندہ رکھا ہے۔ ہم پاکستان میں رہتے ہیں لیکن پاکستان ان کے دلوں میں رہتا ہے۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر  پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں  بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں۔)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔