کاروبار
Time 17 اکتوبر ، 2017

پاکستان پر بیرونی قرضہ 82 نہیں 62.42 ارب ڈالر کا ہے

وزارت خزانہ کے ترجمان نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کا داخلی اور غیر ملکی قرضہ مجموعی طور پر جون 2017 میں 19 ہزار 634 (19634) ارب روپے ہے جو کہ 61.6 فیصد آف جی ڈی پی ہے۔

غیرملکی قرضے کو حکومت نے (FISCAL RESPONSIBILITY AND DEBT LIMITATION ACT- 2005) ایف آر ڈی ایل ایکٹ 2005 کے تحت ہے، جون 2018 تک 60 فیصد آف جی ڈی پی تک لانا ہے جب کہ 2001 کی جنرل مشرف حکومت کے وقت یہ 97.7 فیصد آف جی ڈی پی تھا۔

داخلی قرضہ تقریباً 13081 ارب روپے کا ہے جبکہ بیرونی قرضہ 6552 ارب روپے مالیتی ہے، اگر ہم جی ڈی پی کی سطح پر موازنہ کریں تو بیرونی قرضہ جی ڈی پی کے 20.8 فیصد سے کم ہوکر 20.6 فیصد ہوگیا ہے۔

داخلی قرضہ 40.5 فیصد سے بڑھ کر 41.1 فیصد ہوگیا ہے، جنرل مشرف کے دور میں 2001 کے دوران بیرونی قرضہ کل مجموعی قرضے کا 52.1 فیصد تھا جو کہ جون 2017 میں کم ہو کر 33.4 فیصد رہ گیا ہے۔ 

ترجمان وزارت خزانہ نے کہا کہ 2001 میں جی ڈی پی کے حوالے سے جنرل مشرف دور میں بیرونی قرضہ تقریباً 50 فیصد تھا جو کہ جون 2017 میں جی ڈی پی کے 20.6 فیصد رہ گیا ہے۔ 

جب ان سے پوچھا گیا کہ 82 ارب ڈالر کا قوم پر غیر ملکی قرضہ ہوگیا ہے اسے غریب قوم کس طرح لوٹائے گی، انہوں نے جواب دیا کہ 82 ارب ڈالر کا قرضہ نہیں ہے کیونکہ اس میں نجی شعبے کا بھی قرضہ ہے۔

 انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان پر جون 2017 تک غیر ملکی قرضہ 62.5 ارب ڈالر کا ہے باقی تقریباً 20 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنے کی ذمہ دار حکومت پاکستان نہیں ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ حکومت نے قرضے کا بوجھ کم کرنے کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی ہے تو ترجمان نے کہا کہ موجوہ حکومت نے ترمیم کے ذریعے مختصر المدت اور طویل المعیاد حکمت عملیاں بناکر ان کو پارلیمنٹ کے ذریعے ایف آر ڈی ایل ترمیمی ایکٹ 2005 کا حصہ بنایا ہے۔

جس کے تحت جولائی 2018 سے 24-2023 کے مالی سال تک ہر سال اس قرضے کو 0.5 فیصد کم کیا جاتا رہے گا پھر اسے اگلے دس سال میں 33-2032 تک ہر سال 0.75 فیصد تک کم کیا جاتا رہے گا۔

اس طرح 33-2032 میں پاکستان پر مجموعی قرضہ جی ڈی پی کا 50 فیصد تک رہ جائے گا جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان کی حکومت اس قابل ہے کہ وہ غیر ملکی قرضہ وقت پر ادا کرتی جائے تو ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران پاکستان نے اوسطاً چار سے ساڑھے چار ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے ہر سال واپس کئے ہیں۔

اس لحاظ سے پاکستان کو اگلے سالوں میں اتنے اوسطاً قرضے واپس کرنے میں کوئی مشکل دقت نہیں ہوگی۔ کیونکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہے جوکہ 2013 میں موجودہ حکومت کو ورثے میں ملی تھی۔

10 فروری 2014 میں زرمبادلہ کے ملکی ذخائر 7.57 ارب ڈالر تھے جس میں اسٹیٹ بینک کے پاس 2.83 ارب ڈالر تھے اور بینکوں کے پاس 4.75 ارب ڈالر تھے 13 اکتوبر 2017 کو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 7 ارب 57 کروڑ ڈالر کی بجائے 20 ارب 5 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے جس میں اسٹیٹ بینک کے 14 ارب 16 کروڑ ڈالر، بینکوں کے پاس 5 ارب 89 کروڑ ڈالر ہیں۔ 

ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ ملکی معیشت کی مجموعی صورتحال آنے والے سالوں میں مزید مستحکم ہوتی جائے گی جو ہم میڈیم ٹرم (وسط المدت) میں جی ڈی پی 7 فیصد تک لے جانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔

اس کی بڑی وجہ آپریشن ضرب عضب، آپریشن ردالفساد کی کامیابیاں ہیں خاص طور پر پاکستان کے اقتصادی حب کراچی میں امن وامان کی تیزی سے بہتر ہوتی صورتحال ہے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کی کامیابی کا سہرا عسکری قیادت کے سر ہے اس کیلئے موجودہ حکومت تمام ضروری وسائل فراہم کرتی چلی آرہی ہے۔

ترجمان وزارت خزانہ نے ضمنی سوال پر بتایا کہ یہ قرضے پاکستان میں ہی نہیں لئے جاتے دنیا بھر کے چھوٹے بڑے ملک اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار تیز تر کرنے کیلئے قرضے لیتے ہیں۔ 

آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا، برطانیہ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملکوں پر قرضوں کا بوجھ ان کی جی ڈی پی کے 80 سے 100 فیصد تک ہے حتیٰ کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں جیسا کر مصر سری لنکا بھارت کے ذمے قرضے ان کی جی ڈی پی کے 61 فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔

2017 میں مصر کا قرضہ جی ڈی پی 93.6 فیصد، سری لنکا پر قرضہ اس کی جی ڈی پی کے 79.5 فیصد، بھارت پر قرضوں کا بوجھ اس کی جی ڈی پی کے 67.7 فیصد کے مساوی ہے۔ 

یہاں یہ بات ضروری ہے کہ پوری دنیا کے ملکوں پر جو قرضے کا بوجھ ہے وہ 2013 سے 2017 تک تقریباً 8 فیصد بڑھا جبکہ پاکستان پر قرضے کا بوجھ بڑھنے کی شرح 1.4 فیصد رہی (60.2 فیصد 2013 سے 61.6 فیصد 2017) یہ آئی ایم ایف کی رپورٹ ہے۔

ترجمان نے برآمدات کے متعلق ضمنی استفسار پر مزید بتایا کہ صرف پاکستان کی ہی برآمدات میں کمی نہیں ہوئی بلکہ عالمی کساد بازاری کی وجہ سے بھارت، انڈونیشیا، سری لنکا وغیرہ کی برآمدات میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی۔

ترجمان کے مطابق چونکہ اب عالمی کسادبازاری میں کمی آرہی ہے انٹرنیشنل اداروں کے مطابق عالمی گروتھ 3.1 فیصد سے بڑھ کر 3.5 فیصد تک چلی گئی ہے جس کی وجہ سے توقع ہے کہ پاکستان کی برآمدات رواں مالی سال میں بڑھتی جائیں گی۔