بلاگ
Time 17 اکتوبر ، 2017

احمد شہزاد۔۔۔ آخر کب تک؟

ایک روزہ کرکٹ میں اوپنرز کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور آج کل کی کرکٹ میں 300 سے 350 رنز بنانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے اننگز کی شروعات میں ہی اگر ایک اچھی شراکت قائم ہوجائے تو میچ کا کنٹرول ٹیم کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور مخالف ٹیم دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔

لیکن پاکستان کرکٹ میں ان دنوں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جس کی بنیادی وجہ احمد شہزاد ہیں جن کے پاس معلوم نہیں کون سی گیدڑسنگی ہے کہ وہ بری سے بری کارکردگی کے باوجود بھی ٹیم سے باہر نہیں ہوتے۔

احمد شہزاد کی بیٹنگ اور اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے میں تو یہی کہوں گا کہ نہ تو وہ اپنے لیے کھیلتے ہیں نہ ہی ٹیم یا ملک کے لیے۔ یوکہہ لیجئے کہ وہ تو کھیلتے ہیں نہیں ہیں بس خواہ مخوا ٹیم میں ہیں۔

سری لنکا کے خلاف پہلے ایک روزہ میچ میں 12 گیندیں ضائع کرنے کے بعد ایک برا شاٹ کھیل کر وہ بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے جبکہ دوسرے میچ میں بھی 17 گیندیں کھیل کر صرف 8 رنز بنا کر چلتے بنے ۔

اس سے قبل ورلڈ الیون کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی احمد شہزاد متاثر نہ تھے ۔ تین میچوں میں اوپننگ بلے باز نے بالترتیب 39، 43 اور 89 رنز بنائے۔ آپ کہیں گے کہ اسکورز اتنے برے بھی نہیں لیکن اہم بات یہاں اسٹرائیک ریٹ کی ہے۔ ان تینوں اننگز میں سے پہلی دو اننگز میں ان کا اسٹرائیک ریٹ 120 کے ارد گرد تھا جو کہ لاہور کی بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ کے لحاظ سے بہت کم ہے جبکہ تینوں میچوں میں انہوں نے کئی گیندیں بھی ضائع کیں۔

یہاں قابل ذکر بات ان میچوں میں پاور پلے کے دوران ان کی ناقص بلے بازی بھی تھی۔ پہلے ٹی ٹوئنٹی میں پاور پلے کے دوران انہوں نے 13 گیندوں پر صرف 12 رنز بنائے جبکہ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں انہوں نے 19 گیندوں پر 16 رنز بنائے۔ دونوں میچوں میں ان کا اسٹرائیک ریٹ بالترتیب 92 اور 84 تھا۔ اب کیا یہ خود غرضی نہیں؟ کیا ایک 89 رنز کی اننگز کھیل کر احمد شہزاد اگلے 25 میچ کھیلنے کے اہل ہوگئے ہیں؟

اب احمد شہزاد کے گزشتہ کچھ سالوں کے دوران اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ 2016 اور 2017 کے درمیان انہوں نے 8 میچ کھیل کر صرف 120 رنز اسکور کیے جس میں ایک 67 رنز کی اننگز بھی شامل ہے جبکہ دیگر 7 میچوں میں انہوں نے صرف 53 رنز بنائے ۔

ان 8 میچوں میں ان کا اسٹرائیک ریٹ صرف 59.40 رہا ہے جو کہ جدید ایک روزہ کرکٹ کے لحاظ سے بہت کم ہے جہاں زیادہ تر بلے باز 100 یا اس سے زائد اسٹرائیک ریٹ سے کھیلتے ہیں بلکہ کئی بلے باز تو ٹیسٹ کرکٹ میں اس سے بہتر اسٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کرتے ہیں۔

آخر کب تک ہم ’ینگ اینڈ ٹیلنٹڈ‘ عمر اکمل کی طرح احمد شہزاد کو مواقع دے دے کر ملک میں موجود حقیقی ٹیلنٹ کا حق مارتے رہیں گے؟

اگر سمیع اسلم، شان مسعود، فواد عالم یا حارث سہیل جیسے کھلاڑیوں کو موقع نہ دینے کی آپ نے ٹھان لی گئی ہے تو کم از کم چیف سیلیکٹر انضمام الحق کے بھتیجے امام الحق کو ہی موقع دے دیجئے؟ جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی دکھا رکھی ہے۔

اگر یہ نہیں کرنا تو محمد حفیظ کو اوپن کرواکر مڈل آرڈر میں کسی اور بیٹسمین کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

ایک وقت تھا جب احمد شہزاد اپنی جارحانہ بیٹنگ کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن شاید ان دنوں ان کی توجہ کرکٹ کے بجائے سیلفیوں پر زیادہ ہے اور وہ سوشل میڈیا پر اپنی کرکٹ سے زیادہ سیلفیوں کی وجہ سے مشہور ہیں ۔

میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ احمد شہزاد کو ٹیم میں منتخب کرنے کے بجائے انہیں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کا کہا جانا چاہیے یا انہیں سیلفیوں کے کام پرہی لگا دینا چاہیے۔ دونوں صورتوں میں کم از کم ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں کے لیے راہ کھلے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔