پاکستان
Time 19 اکتوبر ، 2017

جہانگیر ترین نااہلی کیس: روزانہ نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جہانگیر ترین نااہلی کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ آئے روز نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں لہذا فریقین کے وکلا عدالت سے معاونت کریں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے آغاز پر جہانگیر ترین کے وکیل سکندر  بشیر مہمند نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل شوگر مل کے 60 فیصد شیئرز ہولڈر ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے سکندر مہمند سے استفسار کیا کہ کیا جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو شوگر مل کے اکیلے مالک ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ الزام ہے جہانگیر ترین نے اپنے ملازمین کے ذریعے حصص خریدے، یہ بھی الزام ہے کہ ملازمین کے پاس حصص خریدنے کے لیے رقم نہیں تھی۔

سکندر مہمند نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی سوالات سے ہمیشہ حوصلہ افزائی ہوتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بات سمجھ نہ آئے تو سوال پوچھتے ہیں، ایسے ریمارکس نہیں دیے جو کل میڈیا میں چلتے رہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار اور جہانگیر ترین کے وکیل سکندر مہمند کے درمیان طویل مکالمہ ہوا۔

چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا چیٹنگ، بےایمانی ہے؟ جس پر سکندر مہمند نے جواب دیا جی ہاں چیٹنگ، بےایمانی ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے دوبارہ پوچھا کیا فراڈ بددیانتی پر مبنی عمل ہے؟ جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا جی ہاں، فراڈ بددیانتی پرمبنی عمل ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عدالت نے ایمانداری کاجائزہ لینا ہے اور آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف ایمانداری کو ریگولیٹ کرتا ہے۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل نے ایس ای سی پی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں جب کہ غیرآئینی قانون پرنااہلی نہیں ہوسکتی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر قانون غیرآئینی نہ ہوا تو پھرآپ کا موقف کیا ہو گا؟

سکندر بشیر مہمند نے جواب دیا کہ موقف ہو گا کہ جہانگیر ترین کے کاغذات نامزدگی کو کسی نے چیلنج نہیں کیا اور جہانگیر ترین کے خلاف کسی عدالتی فورم کا فیصلہ بھی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آرٹیکل 62 کے تحت ایمانداری کے معیار اور اسکوپ کو سمجھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ عدالتی کارروائی ٹرائل سے بڑھ کر ہے، آئے روز نئی چیزیں عدالت کے سامنے آ رہی ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ دیکھنا ہوگا ارکان پارلیمان کی نااہلی کیلیے ایمانداری کی نوعیت کیا ہو گی، بے ایمانی کی ایک صورت کرپشن بھی ہے۔ آرٹیکل 62 ون ایف کے ایک ایک لفظ کا جائزہ لینا ہو گا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ فریقین کے وکلا آرٹیکل 62 ون پر معاونت کریں۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق صرف کرپشن پر نہیں ہوتا، عدالت نے جعلی ڈگری پر آرٹیکل 62 پرنااہل کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ’گھر پر نہ ہونا‘ کہہ دینا صادق اور امین کے زمرے میں آتا ہے، والد کا بچوں کو کہنا باہر والے کو کہو پاپا گھر پر نہیں، یہ بھی ایک قسم کی بے ایمانی ہے۔

عدالت نے جہانگیر ترین کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ جہانگیر ترین کو زرعی اراضی چھپانے، ٹیکس ادا نہ کرنے، شوگر ملز کی ان سائیڈر ٹریڈنگ اور اثاثے ظاہر نہ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔

مزید خبریں :