بلاگ
Time 24 اکتوبر ، 2017

جمہوریت کے تقاضے ہیں کیا ؟

ملک کے سیاسی افق پر اتار چڑھاؤ اب معمول کی بات لگتے ہیں ۔ کبھی سنتے ہیں کہ جمہوریت اب گئی کہ تب گئی۔ کبھی جمہوریت ہی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔ کبھی کہا جاتا ہے اسٹیبلشمنٹ کی حکومتی امور میں مداخلت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ 

کبھی کہتے ہیں کہ خفیہ ہاتھ حکومت چلنے نہیں دیتے ۔ اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ اگر عدلیہ کسی سیاست دان کے خلاف فیصلہ دے دے تو وہ اور اس کے حمایتی عدالت عظمی پر ہی بہتان لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔ وکلا بھی کسی سے کم نہیں اور وہ بھی سیاست میں آگے آگے نظر آتے ہیں ۔

مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ ایسی آوازیں ان افراد کی جانب سے بھی آرہی ہیں جو اس وقت حکومت میں شامل ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپین بھی کہتے ہیں بلکہ یوں کہیں تو شاید زیادہ بہتر ہو کہ جمہوریت کے چاچے مامے بنے ہوئے ہیں۔

مجھے لگتا ہے ان سیاست دانوں کو تو جمہوریت کی صحیح تشریح بھی نہیں معلوم ہو گی ۔ ان کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ منافقت کو جمہوریت کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ ان سیاسی شخصیات کے نزدیک ہر شخص کی کوئی نا کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے جس پر وہ باآسانی خریدے جا سکتے ہیں۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہےکہ جو نہیں ہونا چاہیے تھا دھڑلے سے ہو رہا ہے۔ 

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں کمال بات کی، انہوں نے یونیفارم میں ہوتے ہوئے سیاستدانوں کو دو لفظوں میں بتا دیا کہ جمہوریت کی کیا تعریف ہے ۔

جمہوریت کی آڑ میں یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کے ووٹ لے کر حکومت بنائیں، وزیر نامزد کریں اور بس پھر لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا جائے اور کوئی پوچھنے والا نا ہو ۔ اگر کوئی آواز اٹھائے تو اسے حیلے بہانوں سے یا تو خرید لیا جائے یا اسے بدنام کر دیا جائے ۔ ماضی قریب میں ہونے والے این آر او یا دوسرے الفاظ میں مک مکا سے کون واقف نہیں ۔ اور اگر کسی طرح ان کا تھوڑا بہت احتساب کیا بھی جائے تو بیچاری جمہوریت ہی کو خطر ہ لاحق ہوجاتا ہے ۔

پاکستانی عوام بھی بہت بھولی ہے ان سیاستدانوں کی باتوں میں آکرعدالتوں کے باہر ان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، کیا یہ جمہوریت ہے کہ ملک کے وزیرخزانہ پر عدالت میں کرپشن کا کیس چل رہا ہو اور وہ عہدہ چھوڑنے کے بجائے اس کرسی پر براجمان رہے ۔ ان سیاستدانوں کے نزدیک اسی طرزعمل کا نام جمہوریت ہے جبکہ حقیقی جمہوریت کیا ہوتی ہے اوراس کے کیا تقاضے ہیں اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔

کیا جمہوری تقاضے یہ ہوتے ہیں کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد حکومتی اداروں کو اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا اور انہیں اپنا ذاتی ملازم سمجھنا۔

حقیقی جمہوریت ایک صاف ستھری، عوام دوست اور غریب پرور طرز حکومت کو کہا جاتا ہے ،کسی لوٹ مار ٹولے کا حکومت کرنے کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں کمال بات کی، انہوں نے یونیفارم میں ہوتے ہوئے سیاستدانوں کو دو لفظوں میں بتا دیا کہ جمہوریت کی کیا تعریف ہے ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جمہوریت کو جمہوری تقاضے پورے نہ کرنے سے خطرہ ہو سکتا ہے فوج سے نہیں۔ جنرل آصف غفور ایک آرمی آفیسر ہیں شاید اس لیے جمہوری تقاضوں کو تفصیل سے بیان نہیں کیا۔ آئیے ہم بتاتے ہیں۔

کیا جمہوری تقاضے یہ ہوتے ہیں کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد حکومتی اداروں کو اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا اور انہیں اپنا ذاتی ملازم سمجھنا۔ اربوں روپے کے قرضے معاف کروانا اور ان کو غیر قانونی طریقوں سے نوازنا۔ رشوت کی کمائی سے اپنی تجوریاں بھرنا اور اس کو بیرون ملک منتقل کرنا۔ قومی خزانے کو اپنی عیاشیوں پر اڑانا وغیرہ وغیرہ۔۔

جناب عوام کا ووٹ ایک مقدس امانت ہے جس میں خیانت ایک قابل سزا اور سنگین جرم ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر ہم غلط ہوئے تو اگلی بار عوام ہمیں مسترد کر دیں گے ۔ جی نہیں جناب۔۔۔ یہ صرف اس صورت کے لیے کہا جا سکتا ہے اگر حکومت عوام کی فلاح کے منصوبے بنانے میں سستی دکھائے نا کہ رشوت کا بازار گرم کرے۔ اگر ایسا ہونے لگے تو سیاست دانوں پر سات خون معاف ہو جائیں گے اور کوئی ان سے جواب طلبی نہیں کر سکے گا۔

عوام کے ووٹ کا تقدس پامال کرنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔ عوامی نمائندوں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے والی قانون سازی تو نہایت برق رفتاری سے کرلیں لیکن عوام کو اپنی چکنی چپڑی باتون سے بہلاتے رہیں۔ اپنی جیبیں بھرنے کے لیے ملک کو آئی ایم ایف، عالمی بنک اور دیگر اداروں سے اربوں ڈالر کے قرضے لے کر ان کے بوجھ تلے دبا دیں۔ نا صرف خود ٹیکس نہ دیں بلکہ عالمی اداروں کے کہنے پرغریب عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دفنا دیں ۔

محترم، عوام کی خون کمائی سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں کی رقم نہایت احتیاط اور دیکھ بھال کر فلاحی منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے ہوتی ہے ناکہ اپنی بادشاہانہ اخراجات کو پورا کرنے اور اللے تللوں پر اور نا ہی بے جا ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، وزیراعلی ہاؤس یا گورنر ہاؤس کی تزین و آرائش پر۔ حکمران کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ملک میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔ عوام کے لیے مفت اور معیاری طبی اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی یقینی ہو۔ ان کے لیے ذریعہ معاش کے مناسب مواقع اور نوکریوں کا انتظام کرنا۔ قومی اداروں کو منافع بخش بنانا۔ لوگوں کے لیے بہتر ٹرانسپورٹ اور رہائشی سہولیات فراہم کرنا۔

یہ نہیں کہ ملک میں فاقے کے ہاتھوں مجبور ہوکر پورا گھرانہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائے ، لوگوں کے گھروں میں ڈاکے پڑتے ہوں، سڑکوں پر لوٹ مار عام ہو لیکن حکومت سوتی رہے۔ سیکیورٹی کے نام پر اپنے منظور نظر افراد پر تو کروڑوں خرچ کردئیے جائیں لیکن عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے۔ پولیس با اثرافراد کی ملازم بنی رہے اور ان کے حکم پر قانون کی دھجیاں اڑاتی پھرے لیکن مظلوم عوام پولیس اسٹیشن جاکر اپنی فریاد کرتے ہوئے ڈرے۔ 

وزیراعظم اور کابینہ کے دیگر ارکان کے اخراجات ان کی معمولی آمدنی کا عشرعشیر ہو کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ ان کی تنخواہ سے گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہو لیکن ان کی جائیداد اور بنک بیلنس اربوں کھربوں میں ہو۔ عوام کے پاس کھانے کو ایک وقت کی روٹی نہ ہو اور حکمران عیاشیوں میں مگن ہوں۔ عوام غلاظت والا پانی پینے پر مجبور ہوں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے درآمد شدہ پانی پیئں اور لوگ بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو مناسب علاج کی سہولت نہ ہو اور یہ اشرافیہ غریبوں کی کمائی سے حاصل ہونے والے ٹیکس کی رقم اپنے اور اپنے اہل خانہ کے بیرون ملک علاج پر اڑادیں ۔ عوام کے لیے مناسب سفری سہولیات نہ ہوں اور حکومتی ارکان اپنے بیرون ملک دوروں پر اربوں روپے خرچ کر دیں۔

با خبر ذرائع کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے ملک میں رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے خواہ انہیں جیل ہی میں کیوں نہ ڈال دیا جائے۔

وزیراعظم اپنے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد بھی عدالت میں پیش ہوتو اس کی سکیورٹی پر دو ہزار اہلکار لگا دِئیے جائیں ۔ یہی نہیں بلکہ ان کے بچے بھی اپنے آپ کو بادشاہوں کی طرح سمجھیں اور لوگوں سے بری طرح پیش آئیں تو کیا اسی کو جمہوریت کہا جائے ؟ کیا یہ جمہوریت ہے ؟ 

حضرت عمر رضی اللہ کے دور حکومت میں دوسری چادر دیکھ کر ان پر اعتراض اٹھا دیا گیا تھا کہ سب کو ایک چادر دی گئی آپ کے پاس دوسری چادر کہاں سے آئی تو انہیں جواب دینا پڑا کہ اپنے بیٹے سے لی ہے۔ اگر وہ ثابت نہیں کر پاتے تو شاید حکومتی منصب سے ہاتھ دھونا پڑتے ۔ لیکن پاکستان میں اصول الٹے ہیں ۔ 

وزرا ءہوں یا وزرائےاعظم،، اراکین پارلیمان ہوں یا صدور سب اربوں روپے کی اندورن اور بیرون ملک پراپرٹیز بنا لیتے ہیں اربوں ڈالر ان کے بینک اکاؤنٹس میں ہوتے ہیں لیکن ان سے معلوم نہیں کیا جائے کہ ان کے پاس دولت کہاں سے آئی یا کیسے کمائی۔ ان کو کرپشن، بد عنوانی اقرابا پروری، غیر قانونی بھرتیوں حکومتی خزانے کو نقصان پہنچانے، عدالتی احکامات پر عمل نا کرنے سمیت ان پر کوئی بھی الزام لگے وہ پارسا ہی کہلاتے ہیں ۔

سوال کرنے سے ان کا استحقاق مجروح ہو جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان سے سوال کیوں کیا گیا ؟ کیا اسی سب کا نام جمہوریت ہے۔ کیا یہی جمہوری اصول ہیں ؟

حکومتی اراکین کو ابھی تک تو یاد نہیں آیا تھا کہ عدلیہ اور فوج کو بھی نیب کے نیچے ہونا چاہیے ۔ سیاست دانوں کی باری آئی تو یہ خیال بھی آگیا کہ فوج اور عدلیہ کو نیب کے تحت لایا جائے۔ پنجاب کے وزیراعلی میاں شہباز شریف نے صحیح کہا کہ فوج اور عدالیہ کا اپنا خود احتسابی نظام موجود ہے جو برسوں سے اس پر عمل کر رہا ہے اور احتساب کے عمل کو یوں متنازع نہیں بنانا چاہیے۔

جمہوریت میں مفاد عامہ کے تحت کام کیا جاتا ہے نہ کہ انفرادی طور پر آئین اور قانون میں ترامیم کی جاتی ہوں۔ جمہوریت یہ بھی سکھاتی ہے کہ ایسے عمل سے گریز کیا جائے جس سے ملک میں افراتفری یا انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو۔

با خبر ذرائع کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے ملک میں رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے خواہ انہیں جیل ہی میں کیوں نہ ڈال دیا جائے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت پالیسی اپنائیں گے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب ن لیگ کی پارٹی پالیسی وہی ہوگی جو نواز شریف کہیں گے اور جن کو رہنا ہو وہ رہے باقی جاسکتے ہیں۔ لیکن ان کے سخت رویے سے حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہے ۔

جمہوریت کو جمہوری طریقے سے ہی چلایا جانا چاہیے اور کامیاب جمہوریت وہی ہوتی ہے جس میں اجتماعی طور پر لوگوں کی فلاح کے لیے کام کیا جائے ناکہ ذاتی مفاد کو سامنے رکھا جاتا ہو۔ جمہوریت کچھ لو کچھ دو کا نام نہیں اور نا ہی کسی این آر او کا ۔۔ ملک میں جمہوری استحکام کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کے لبادے میں لپٹی منافقت کو بے نقاب کر کے اس کی اصل روح کے تحت بحال کیا جائے۔ جمہوریت عوام پر حکومت کرنے کا نام نہیں بلکہ عوام کی خدمت کا نام ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس پر لگنے والے بدنما داغ صاف کر دیے جائیں۔


رئیس انصاری جیو نیوز کے لاہور میں بیورو چیف ہیں اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔