جناح اور رتی کی لاڈلی دینا بھی رخصت ہوئیں

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اکلوتی صاحبزادی اور آخری نشانی دینا بھی اس فانی دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئیں۔

ان کی عمر 98 برس تھی، ہمارے محبوب قائد کی لاڈلی بیٹی 15 اگست 1919 ءکو لندن میں پیدا ہوئیں، قائد کو دینا کی والدہ رتی سے بے انتہا محبت تھی،جب رتی کا انتقال ہوا تو دینا ساڑھے 9برس کی تھیں۔

رتی کی وفات کے بعد جناح ہندوستان کی سیاست سے دلبرداشتہ ہو کر لندن منتقل ہو گئے اور دینا کو اپنے پاس بلوا لیا تاہم وہ گھر سے دور بورڈنگ میں رہتی تھیں۔

وہ سیاہ آنکھوں والی، خوبصورت اور دلکش لڑکی تھیں، اپنی والدہ کی طرح ہنس مکھ اور زندہ دل بھی تھیں، اکلوتی ہونے ہی کی وجہ سے وہ قائد اعظم کی بے حد لاڈلی تھیں، بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ قائد اعظم دینا سے بہت پیار کرتے تھے۔

دینا کہتی ہیں کہ نومبر 1933 ء میں میرے والد نے ایچ سی آرمسٹرانگ کی مشہور کتاب کمال اتاترک پڑھی اور مجھے کہا کہ اس کو پڑھو اور اس کی بہت تعریف کی، قائد اعظم نے اس کتاب کا ان سے اتنا تذکرہ کیا کہ انہوں نے پیار سے انہیں ’گرے ولف‘ کہنا شروع کر دیا۔

دینا کو اپنی والدہ کی طرح سیرو تفریح اور تقریبات میں شریک ہونے کا بہت شوق تھا، قائد اعظم اپنی زندگی میں اصراف کے سخت مخالف تھے لیکن اپنی لاڈلی بیٹی کو انہوں نے کبھی روک ٹوک نہیں کی، وہ ان کے تھیٹر، سینما، قیمتی لباس اور دیگر تمام اخراجات خوشی خوشی برداشت کرتے، اس سے ان کی دینا سے بے انتہا محبت کا اندازا لگایا جا سکتا ہے۔

سن 1934 ءمیں حضرت علامہ اقبال کے بلاوے پر جناح واپس ہندوستان آ گئے اور بے انتہا مصروف ہو گئے، 1936ء میں انہوں نے دینا کو لندن سے بلوا لیا اور  اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے انہیں دینا کو ننھیال میں چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا جو بے حد نقصان دہ ثابت ہوا، باپ سے دوری اور والدہ کے انتقال کی وجہ سے دینا آہستہ آہستہ پارسی ماحول میں رنگتی اور اپنے والد کے اصولوں سے ہٹتی چلی گئیں۔

قائد اعظم کو جب پتہ چلا تو بہت دیر ہو چکی تھی، دینا نے ایک پارسی نژاد عیسائی شخص نیول واڈیا سے شادی کا فیصلہ کر لیا اور اس پر عمل بھی کر ڈالا، قائد اعظم نے مولانا شوکت علی کو کہا کہ وہ دینا کو سمجھائیں لیکن دینا نے ایک نہ سنی اور قائد اعظم سے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکیاں تھیں، آپ نے بھی تو ان سے شادی نہ کی۔

اسٹنلے والپرٹ لکھتا ہے کہ جناح نے دینا سے قطع تعلق کر لیا لیکن خود دینا لکھتی ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے، وہ محبت کرنے والے باپ تھے، میری ان سے آخری ملاقات 1946ء میں ممبئی میں ہوئی، انہوں نے مجھے اور میرے بچوں کو چائے پر مدعو کیا تھا، اس وقت میری بیٹی 5برس کی اور نوسلی دو برس کا تھا، وہ تمام وقت سیاست اور بچوں کے بارے میں بات کرتے رہے اور کہا کہ پاکستان کا بننا بے حد ضروری ہے، وہ بچوں کے لیے تحفے بھی لائے تھے۔

دینا لکھتی ہیں کہ پاکستان کے لوگوں کو اگر میرے والد پر فخر ہے تو بالکل ٹھیک فخر ہے، اگر جناح نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا، قائد اعظم اور دینا میں قیام پاکستان سے کچھ پہلے تک رابطہ موجود تھا، اسلام آباد میں حکومت پاکستان کے آرکائیوز میں ایسے کئی خطوط موجود ہیں جو انہوں نے اپنے والد کو تحریر کئے، اسی طرح کا ایک خط جو انہوں نے 5جون 1947ء کو لکھا میں نے آپ کی تین جون کی تقریر سنی، میرے خیال میں آپ کی تقریر بہترین اور موقع کے مطابق تھی، اگرچہ آپ وہ سب نہیں حاصل کر سکے جو آپ چاہتے تھے مگر آپ کو جو مل گیا ہے کانگریس سے وہ بھی تسلیم نہیں ہو گا، آپ کا اصل کام پاکستان کے بننے کے بعد شروع ہو گا اور میں جانتی ہوں کہ آپ اس میں بھی کامیاب رہیں گےقیام پاکستان کے بعد دینا ممبئی میں مقیم رہیں۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد ایک خصوصی طیارہ دینا واڈیا کو کراچی لایا جہاں انہوں نے اپنے عظیم والد کا آخری دیدار کیا۔

روزنامہ ’جنگ‘ نے اس موقع پر اپنی خبر میں لکھا کہ قائد اعظم کی اکلوتی صاحبزادی مسز نیول واڈیا ایک خصوصی طیارے میں ممبئی سے کراچی پہنچیں، مس فاطمہ جناح مسلسل رو رہی تھیں تاہم دینا کے آنے سے آپ کو ذرا تسلی ہوئی۔

دینا ہمارے محبوب قائد کی آخری نشانی تھیں جو آخری مرتبہ 2004ء میں پاکستان آئیں اور آخری مرتبہ اپنے عظیم والد کے مزار پر حاضری دی اور پھر کبھی واپس نہ آنے کےلیے لوٹ گئیں، گو انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ پاکستان آئیں گی لیکن موت نے اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیا اور وہ اپنے حقیقی پیدا کرنے والے کے پاس لوٹ گئیں جہاں ان کے والد محمد علی جناح اور والدہ رتی بھی موجود ہیں۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔