بلاگ
Time 04 نومبر ، 2017

انسانیت کا قتل

ڈیرہ اسماعیل خان میں 27 اکتوبر کو پیش آنے والے انسانیت سوز واقعے کے بعد تو لگتا ہے کہ شاید پتھروں کے زمانے میں رہنے والےافراد ہم سے زیادہ بہتر رہے ہوں گے اور  ان کے باہمی اختلافات یا کسی جھگڑے کی صورت میں فیصلہ کرنے والے افراد انسانیت پر مبنی فیصلے کرتے ہوں گے۔ 

پتھر کے زمانے میں بھی زندگی گزرانے کے کچھ اصول وضع تھے لیکن ڈی آئی خان میں ایک لڑکی کو سرعام برہنہ کرنے، اس کی عزت لوٹنے اور تذلیل کی حدیں عبور کرنے کا اندہوناک واقعہ سامنے آنے پر ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں کوئی نظام ہی نہیں ہے۔

غریب عوام کا کوئی والی وارث نہیں جس کا دل چاہتا ہے پنچایت لگا کراپنا فیصلہ صادر کردیتا ہے اور پھر اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے،، جس کا دل چاہے اپنے مطالبات منوانے کے لئے سڑک پر آجاتا ہے۔

 عدالت کا فیصلہ من چاہا لینا چاہتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتو عدالتوں پر بے جا الزامات لگا دیے جاتے ہیں۔

دولت اور طاقت کے نشے میں غرق درندے نما انسان اور ملک کی اشرافیہ کہلانے والے طبقے کے آگے تو لگتا ہے کہ پولیس اور قانون کے نفاذ کے ذمہ داران ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔

 اپنے چھوٹے سے پنڈ، گاؤں یا علاقے سے بڑے شہروں اور قصبوں کے ’با اثر‘ لوگ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں با آسانی اور بلا خوف و خطر قانون کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں اور وہ ایسا کیوں نا کریں جب ان کے ایک فون پر علاقہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی تک تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔

علاقے کے عوامی نمائندے بھی ان کی حمایت حاصل ہونے سے منتخب ہوتے ہوں تو پھر وہ اور ان کے حواری کیوں نہ عام لوگوں کا کھلے عام استحصال کریں، کیوں نہ کھلے عام اسلحہ لہرائیں اور اس کے زور پر غریبوں کی عزت کے جنازے نکالیں۔

 یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے قانون ان کے آگے ایک کھیل تماشہ ہو ۔

آپ نے شاید ہی سنا یا پڑھا ہو کہ زمانہء قدیم میں کسی لڑکی کی عزت لوٹنے کے بعد اسے برہنہ بازاروں میں پھرایا گیا ہو۔ وہ لوگوں سے مدد کی التجا کرتی رہے لیکن اسلحہ برداروں کے آگے کوئی اس کی مدد کرنے کی ہمت نا کرسکے۔

ایسا بھیانک رویہ تو اس صورت میں بھی قابل معافی نہیں جب کوئی قصور وار ثابت ہو جائے ۔

آج ایسے ہی بااثر لوگوں نے غریب کے لیے انصاف کا حصول نا ممکن بنا دیا ہے اور اس کے ہاتھ رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ عوام کسی شکایت پر تھانے جانے سے خوف کھاتے ہیں کیوں کہ قانون کے محافظ مجرموں کو تحفظ دیتے ہیں اور اکثر بے قصور کو ہی لاک اپ میں ڈال کر ایف آئی آر درج کر دیتے ہیں ۔

لیکن جب قانون سرعام نیلام ہوتا ہو اور جو جتنا بھاؤ لگائے اتنا طاقتور بن جائے کا اصول چلتا ہو تو جنگل کا قانون کیوں نہ رائج ہو۔

افسوس تو یہ ہے کہ یہ سب کسی بیابان یا صحرائی علاقے میں نہیں بلکہ شہروں میں ہو رہا ہے۔ عدالتیں لگ رہی ہیں، سزا و جزا کا ایک متوازی نظام قائم ہے اور دھڑلے سے چل رہا ہے۔ 

علاقے کے عوامی نمائندے اس صورت حال کا علم رکھنے کے باوجود خاموش تماشائی بنے رہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ لاعلم ہیں تو یہ عوامی خدمت کے دعوے داروں کے لیے زیادہ شرم کا مقام ہے کہ ان کے علاقے کے لوگ رسوا ہو رہے ہوں اور وہ ٹھنڈے ایوانوں اور اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہوں۔

 یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث عدالتوں کے ہوتے ہوئے پنچایتی نظام بے خوف و خطر چل رہا ہے۔ شور صرف اس وقت ہوتا ہے جب کوئی انسانیت سوز واقعہ میڈیا کے ذریعے سامنے آتا ہے، اس پر بھی ایک دو دن بات ہوتی ہے پھر سب بھول جاتے ہیں اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا اصول چلتا رہتا ہے۔

کسی مہذب معاشرے میں یہ نہیں ہوتا کہ کسی بھی جرم کا فیصلہ علاقے کے با اثر افراد یا پنچایت کرے۔ ہر چھوٹے یا بڑے جرم کی سزا کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور انصاف کا تقاضا بھی یہ ہے کہ قصور وار کو سزا ملے اور کوئی بے قصور مارا نہ جائے۔

سر ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ وہ ملک کبھی تباہ نہیں ہوتا، جہاں انصاف ہوتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ " ظلم پر مبنی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر نا انصافی پر نہیں"۔

ملک کے جو حالات نظر آرہے ہیں اس میں خرابی کی بڑی وجہ انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنا ہیں، یہاں غریبوں کے لیے کچھ اور امیروں کے لئے قانون کچھ اور ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک معصوم لڑکی سے زیادتی کی گئی، اسے برہنہ سڑکوں پر گھمایا گیا اور اسلحہ برداروں کے آگے سب بے بس رہے۔

 اس سلوک کی وجہ لڑکی کے بھائی کا جرم تھا جس نے علاقے کی ایک لڑکی کو فون خرید کر دیا تھا۔

 تفصیلات کے مطابق تقریبا" دو سال قبل ڈی آئی خان کے رہائشی ساجد علاقے کی اس لڑکی کو پسند کرتا تھا اور اسی نے موبائل لے کر لڑکی کو دیا۔ ساجد کے جرم کی سزا کا فیصلہ ایک پنچایت میں کیا گیا اور اسے متاثرہ خاندان کو ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا کہا گیا جو اس نے ادا کر دیے یوں یہ معاملہ ختم ہو گیا۔

لیکن اس لڑکی کے بھائی کی نظر میں یہ سزا کافی نہیں تھی اور اس نے اپنی طاقت کے زور پر ساجد کی معصوم بہن کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد سر عام برہنہ کیا اور سڑکوں پر گھسیٹا، لڑکی اپنی مدد کے لیے لوگوں کو آوازیں دیتی رہی لیکن کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔

لڑکی کے لیے ظلم کی انتہا یہ نہیں تھی۔ وہ جب اپنے والدین کے ساتھ علاقے کے تھانے میں رپورٹ درج کروانے گئی تو مجرمان پہلے سے وہاں ایس ایچ او کے ساتھ بیٹھے تھے۔

انہوں نے ساجد کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا تھا اور ایس ایچ او نے نہ صرف اس اندہوناک واقعے کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کیا بلکہ ان لوگوں کو تھانے میں بند کرنے کی دھمکیاں دیں۔

 یہ واقعہ میڈیا میں رپورٹ ہونے کے بعد وہی گھسے پٹے جملے سننے کو ملے کہ مجرمان کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، انتظامیہ کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ واقعے کے مرکزی مجرم ابھی تک آزاد ہے۔

پاکستان میں پنچایتی نظام صرف خیبر پختون خوا، بلوچستان، سندھ یا پنجاب کے دیہی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ شہروں میں بھی بہت عام ہے جس کی حالیہ مثال کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں پسند کی شادی کرنے کے جرم میں لڑکی اور لڑکے کو بجلی کے جھٹکے لگا کر مار دیا جانا ہے ۔

اس پنچایت کا سربراہ بھی ہاتھ نہیں آیا۔، پنجاب کے کئی شہروں میں بھی اسی قسم کا پنچایتیں دھڑلے سے کام کر رہی ہیں۔

ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایک لڑکی کو درندگی کا نشانہ بنایا جائے اور اس کی سزا دوسری لڑکی سے زیادتی کرنے کی دی جاتی ہے یا سزا کے طور پر چھوٹی چھوٹی بچیوں کی شادی کرکے مخالفین کے حوالے کر دیا جائے۔ 

ونی کرنا تو آپ نے سنا ہی ہو گا، حیرت ہے کہ انسانیت کا قتل اتنا آسان ہو اور اس کی روک تھام کے لیے سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کیا جائے۔

ایسا کوئی واقعہ اگر اتفاقاً سامنے آ جائے تو اپنی جھوٹی شہرت اور نمبر اسکورنگ کے لیے پولیس اور سیاست دان سب آگے آگے نظر آئیں گے۔

 وہ جو کہتے ہیں کہ وقت سب بھلا دیتا ہے تو یہ واقعات کچھ عرصے بعد یاد بھی نہیں رہتے، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں نہ ہو؟ جب ارباب اختیار ہی کچھ کرنے کی خواہش نہ رکھتے ہوں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی عوامی نمائندے کے علاقے میں انسانیت رسوا ہو اور وہ لا علم رہے۔

 ملک میں دوہرا عدالتی نظام کام کر رہا ہو اور اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس نظام کے خاتمے کے ذمہ دار ہی اس کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔

وگرنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی علاقے میں پنچایتیں کام کر رہی ہوں اور پولیس سمیت صوبائی اور قومی اس اسمبلی کے اراکین لا علم ہوں، تو کیا یہ کہنا درست نہیں کہ اس کی ذمہ داری عوامی نمائندوں اور تواتر سے ایوان اقتدار پر بیٹھے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے؟ یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ حکمران عوام کا منتخب کردہ ہے یا کوئی آمر ۔۔ سب ہی اس کے ذمہ دار ہیں ۔

پاکستان میں مختاراں مائی جیسا واقعہ سامنے آیا تو میڈیا کے توسط سے اس کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچی لیکن اس سے کیا یہ واقعات رک گئے؟ ایسے واقعات روزانہ ہوتے ہیں لیکن غریب اور متوسط طبقہ پولیس اور عدالتوں کے جھمیلوں سے ڈر کر طاقتور مجرمان کے آگے بے بس ہیں۔

 نتیجتاً مزید مصیبت میں پھنسنے کے بجائے وہ چپ سادھنے کو غنیمت سمجھتے ہیں، پاکستان میں پنچایتیں لگانا اور ذاتی جیلیں کوئی انہونی بات نہیں، افسوسناک بات یہ ہے کہ ان جھوٹی عدالتوں کو پولیس، عوامی نمائندوں اور حکمران طبقہ کی حمایت حاصل ہے۔

ڈی آئی خان میں پیش آنے والے اس افسوسناک واقعے کے بعد بھی وہی روایتی طریقہ کار کے تحت خیبرپختون خوا کے وزیراعلی پرویز خٹک نے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود کو ہدایت کی ہے کہ ملوث ملزمان کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

پولیس لڑکی پر حملے کے مرکزی ملزم ابھی تک گرفتار نہیں کر سکی ہے اور اگر وہ گرفتار ہو بھی جاتا ہے تو کیا اس گھناؤنے جرم کی سزا ہو سکے گی؟ مشکل ہے کیوں کہ جب مشال خان کے والد در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہوں تو اس مظلوم لڑکی کے گھر والے کیا کر سکتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔