خدا کیلئے بول ’ورنہ‘: طاقت ور ظلم کے خلاف کمزور سچ کی جنگ

— فلم تشہیری پوسٹر

شعیب منصور صاحب کی ”ورنہ “ کا ٹریلر کیسا ہے؟ کیا یہ فلم بھی شعیب منصور صاحب کی ’خدا کے لیے‘ اور ’بول‘ جیسی میگا ہٹ فلموں کی طرح ’ہارڈ ہٹنگ‘ فلم ہوگی؟ کیا واقعی ہمارے نظام میں ظلم اور جھوٹ دونوں طاقتور اور ان کے مقابلے میں سچ اور انصاف کمزور، لاچار اور بے بس ہوتا ہے؟۔ 

کیا ورنہ کا ٹریلر فلم کی کہانی کو سب کے سامنے سب کچھ کھل کر بیان کردیتا ہے؟ ’ورنہ‘ بھی ’خدا کے لیے‘ اور ’بول‘ کی طرح حقیقت سے قریب کیوں لگ رہی ہے؟ کیا ماہرہ خان نے ورنہ میں اپنی زندگی کا سب سے بہترین کردار نبھایا ہے؟۔

 کیا ماہر ہ خان ہی فلم کی ہیرو ہیں؟کیا ماہرہ خان اور رنبیر کپورکی متنازع تصویروں سے بھی فلم کو فائدہ ہوگا؟ کیا ’ورنہ‘ ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کو باکس آفس اور ماہرہ خان ایوارڈز کی تقریب میں مہوش حیات کو ہرا پائیں گی؟ فلم کی کاسٹنگ منفرد کیوں ہے؟ فلم کا ہالی وڈ سے کیا تعلق ہے؟۔

 فلم کا ولن کون ہے؟ فلم کے ولن سے ’نامعلوم افراد‘ اور ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کے ہیروز ہمایوں سعید اور جاوید شیخ کو کیا خطرہ ہے؟ کیا اس بار بھی شعیب منصورصاحب کی فلم ڈرامے یا ویڈیو سے کامیابی سمیٹنے والے نئے اداکاروں کا مستقبل روشن نہیں رہ سکے گا؟۔

 شعیب منصور کامیابی کے میدان میں امیتابھ بچن اور یش چوپڑا سے بھی بہتر کیسے؟ شعیب منصور کے ڈراموں سے برسوں مسکراہٹیں سمیٹنے اور پھیلانے والے ناظر شعیب منصور کی فلمیں دیکھنے کے بعد مسکرانا کیوں بھول جاتے ہیں؟ ’ورنہ‘ میں کیا ہے جو ٹریلر دیکھنے والوں کو الجھا رہا ہے؟ کیا پاکستان میں کامیابی کیلئے بڑی فلم کا عید پر ریلیز ہونا ضروری ہے؟ شعیب منصور خود میڈیا سے دور کیوں رہتے ہیں؟ فلم کا بجٹ کتنا ہے؟

’ورنہ‘ کے ٹریلر کے بعد اٹھنے والا سوالات کا سلسلہ ختم کرکے ان سب سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’ورنہ‘ کا ٹریلر 17 اکتوبر 2017 کو ریلیز کیا گیا، ٹریلر ریلیز ہونے کے ٹھیک ایک مہینے بعد 17.11.17 کی تاریخ کو فلم ریلیز کی جائے گی۔

— فوٹو: فلم تشہیری پوسٹر

فلم کے ٹریلر میں ظلم، زیادتی، تسلی، لالچ، برداشت، جھوٹ، سچ، بدلہ، سیاست، ریاست، حکومت، طاقت، انصاف، ہمت، جدوجہد،کشمکش، بدلہ، انتقام اور سب سے آخر میں انجام سب کچھ تو ہے۔

’ورنہ‘ کا ایک مکالمہ ’جہانگیر اور شادی شدہ نورجہاں‘ ہی بتادیتا ہے کہ فلم کی کہانی کتنی مختلف ہے۔

طاقتور ولن کا رات کی تاریکی میں عورت پر ظلم اور پھر اسی عورت کے ہاتھوں شاید اُسی ’کشتی‘ پر اپنا انجام دیکھنا بھی فلم دیکھنے والوں کو چونکا دینے کیلئے کافی ہوگا۔ 

یہ فلم شاید سب کو دکھائے کہ ایک شادی شدہ عورت کا اپنے خلاف ہونے والے ظلم اور ’زیادتی‘ پر آواز اٹھانا خود اس کیلئے کتنی بڑی مشکل پیدا کردیتا ہے، جب شوہر کے ذہن میں بطور انسان ’ظلم‘ کی شدت سے زیادہ بطور مرد کا ’شک‘ غالب آجاتا ہے۔

کمزور کی آواز کو دبانے کیلئے صرف طاقت ہی نہیں دولت، روپیہ، پیسہ سب استعمال ہورہا ہو لیکن ہمت دکھا کر اپنے ہاتھوں سے انتقام ہی دشمن کا آخری انجام ہو۔

اپنے ماں باپ ہی جب رسوائی اور ظالم کے خوف سے ’چپ‘ رہنے اور ’معاف‘ کرنے کا درس دیتے ہیں ، جب ظلم کرنے والا ظالم ہی نہیں اپنے زمانے کے طاقتور ترین لوگوں میں سے ہو جس کی ’پاور‘ کے سامنے زمانہ بھی جھکتا ہو،کمزور ’سسٹم‘ بھی اس کا گریبان پکڑنے کے بیچ میں رکاوٹ ہو تو ایسے میں انصاف اور قانون کے تقاضے مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو، سول سوسائٹی آپ کے ساتھ ہو لیکن زمانہ خلاف۔

فلم میں ماہرہ خان کا ایک منظر— فوٹو

کمزور کی آواز کو دبانے کیلئے صرف طاقت ہی نہیں دولت، روپیہ، پیسہ سب استعمال ہورہا ہو لیکن ہمت دکھا کر اپنے ہاتھوں سے انتقام ہی دشمن کا آخری انجام ہو۔

فلم میں رومانس بھی ہے اور ایکشن بھی، سوشل ڈرامے کے ساتھ پولیٹیکل ڈرامہ بھی ہے، کامیڈی تو شاید فلم میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہو لیکن کورٹ ڈرامہ بھی بہت سارا ہے۔

 فلم کا ٹریلر ہمیں بہت ساری ایسی خبریں اور واقعات بھی یاد دلادیتا ہے جہاں ظلم سہنے والے کمزور متاثرین کو لالچ، طاقت اور ڈر سے یا ملک سے باہر بھیج کر مٹی پاؤ بھول جاؤ والے فارمولے سے ’انصاف‘ کرایا گیا ہو لیکن ’مختاراں مائی‘ کی فلم کے ٹریلر میں سماجی کارکن کے طور پرموجودگی اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ یہ اس عورت کی کہانی نہیں جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور ظالموں سے ڈرجاتی ہے یا کوئی ’سمجھوتہ‘ کرلیتی ہے بلکہ اس عورت کی داستان ہے جو اپنے لیے انصاف کے لیے ڈٹ جاتی ہے ۔

اگر پاکستانی ایوارڈز والوں نے ولن کے کردار کو بھی بہترین اداکار کی کیٹگری میں جگہ دی تو ضرار خان کا کردار ’نامعلوم افراد‘ کے جاوید شیخ اور ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کے ہمایوں سعید کو ایوارڈز کی تقریبات میں چیلنج کرسکتا ہے۔

ورنہ میں مرکزی کردار ماہرہ خان نے ادا کیا ہے جو شاید ان کی زندگی کا اب تک کا سب سے پاور فل کردار ہے اور ایسا کردار جو ’رئیس‘، ’ہو من جہاں‘، ’بن روئے‘، ’منٹو‘ اور ’بول‘ سے بہت بہتر  اور چیلنجنگ ہے۔

ہارون شاہد اس فلم سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کر رہے ہیں اور فلم میں شعیب منصور کے فیورٹ اور سینئر اداکار رشید ناز بھی موجود ہیں، فلم میں ولن کا کردار ضرار خان کو ملا ہے جو کچھ ملتا جلتا کردار ڈرامے ’میری بہن مایا‘ میں کرچکے ہیں لیکن اس بار ان کا کردار اور زیادہ ظالم، مکار اور طاقتور ہے۔

ہوسکتا ہے شعیب منصور صاحب نے اس ڈرامے کی کچھ جھلک دیکھ کر ہی ضرار کو کاسٹ کیا ہو لیکن ماہرہ کے کردار سے بھی زیادہ ولن کے کردار میں ضرار کی انٹری ’ماسٹر اسٹروک‘ہے۔

اگر پاکستانی ایوارڈز والوں نے ولن کے کردار کو بھی بہترین اداکار کی کیٹگری میں جگہ دی تو ضرار خان کا کردار ’نامعلوم افراد‘ کے جاوید شیخ اور ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کے ہمایوں سعید کو ایوارڈز کی تقریبات میں چیلنج کرسکتا ہے۔

فلم کی کاسٹ —فوٹو:بشکریہ فیس بک اکاؤنٹ

ٹریلر میں ایک انٹری پاور فل سیاست دان یا عہدیدار کی بھی ہے جو شاید فلم میں ولن کے والد کے رول میں ہیں، اگر ہم غلط نہیں تو یہ مخصوص پگڑی اور مونچھوں والے اداکار مشہور ڈرامے ’الفا براو چارلی‘ میں کیپٹن فراز کے والد کا کردار بھی نبھاچکے ہیں۔

فلم میں پی ٹی وی کے دور کے وجیہہ اور خوبرو اداکار ڈاکٹر طارق رحیم کی بھی واپسی ہوئی جو غالباََ اسکرین سے دور رہتے ہیں۔

طارق رحیم نے غالباََ آخری بار نادیہ خان کے مشہور ڈرامے ’بندھن‘ میں یادگار کام کیا تھا، کیا دور تھا جب ہمارے ٹی وی پر شکیل، فردوس جمال، راحت کاظمی، آصف رضا میر، بہروز سبزواری، جاوید شیخ، جمال شاہ، عابد علی، اسماعیل شاہ، قوی خان، عزم الحق، وسیم عباس، آغا سکندر، عجب گل، توقیر ناصر، اظہار قاضی، عثمان پیرزادہ، نعمان اعجاز اور طارق رحیم (بہت سے نام ہیں جن کے نام نہ لے سکا ہوں معذرت اور یہ نام کسی ترتیب میں نہیں لکھے گئے) جیسے اداکار چھوٹی اسکرین سے بالی وڈ میں امیتابھ، ونود کھنہ، فیروز خان، راجیش کھنہ، دھرمیندر سے مقابلہ کرتے تھے اور جم کر کرتے تھے۔

شعیب منصور کیونکہ بہت کم اور مخصوص کام کرتے ہیں تو ان کے ساتھ زیادہ تر کام کرنے والوں کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ وہ جو کام شعیب منصور کے ساتھ کرتے ہیں آئندہ انھیں اتنا مضبوط اور پاپولر کردار ملنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔

بالی وڈ کا وی سی آر پر مقبول اور سستا لیڈ سسٹم بھی اس وقت پاکستانی ڈراموں کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا۔

ویسے صرف ٹریک ریکارڈ کی بات ہو تو بالی وڈ میں اس وقت امیتابھ بچن اور تھوڑے سالوں پہلے آنجہانی یش چوپڑا سمیت کوئی اداکار، ہدایتکار، اور گلوکار نہیں جس نے اپنے میدان میں چالیس سال تک نمبر ون کا اعزاز اپنے پاس رکھا ہو۔

شعیب منصور ’ان کہی‘، ’ففٹی ففٹی‘، ’سنہرے دن‘، ’الفا براو چارلی‘، ’ایوارڈ شوز‘، ’ٹریول شو‘، ’دل دل پاکستان‘ سمیت مشہور گانے، ویڈیوز اور پھر ’خدا کے لیے‘، ’بول‘ اور اب ’ورنہ‘ سے پہلے جو بنایا وہ اپنے زمانے میں پہلے نمبر پر آیا۔

لتا جی اور آشا جی کی تو بات ہی کچھ اور ہیں سُروں کی اِن دونوں “دیویوں“ کا راج تو 50سال سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

شعیب منصور کیونکہ بہت کم اور مخصوص کام کرتے ہیں تو ان کے ساتھ زیادہ تر کام کرنے والوں کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ وہ جو کام شعیب منصور کے ساتھ کرتے ہیں آئندہ انھیں اتنا مضبوط اور پاپولر کردار ملنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔

اب چاہے جاوید شیخ صاحب، ماجد نظامی، جمشید انصاری اور شکیل صاحب کیلئے ’ان کہی‘ہو، سلیم شیخ کے ’سنہرے دن‘، حمیمہ ملک کی ’بول‘ یا پھر جنید جمشید کا ’دل دل پاکستان‘، کلاسک ’ففٹی ففٹی‘ والے سارے کرداروں کو پھر وہ مقبولیت نہیں ملی۔

لیکن کچھ اداکار خوش قسمت رہے کہ انھیں اُتنی ہی کامیابی پھر دوسرے ہدایت کاروں کے ساتھ بھی ملی جیسے بہروز صاحب اور شہناز شیخ کو ’تنہائیاں‘ ملیں، فواد اور ماہرہ خان ’ہمسفر‘ بنے اور سلیم ناصر صاحب نے ہنسا ہنسا کر سب کا ’آنگن ٹیڑھا‘کیا۔

فلم کا بجٹ ابھی تک سامنے نہیں آیا لیکن یہ یقینا اس سال کی دو ”مہنگی “ فلموں پنجاب نہیں جاؤں گی اور نامعلوم افراد2 اور سب سے مہنگی فلم فلم ”یلغار“ سے کافی کم ہوگا۔

فلم کے ٹریلر کو دیکھنے کے بعد ایک کردار نے الجھن اور بے چینی بڑھادی وہ کردار ہے ہارون شاہد کی بہن کا کردار ادا کرنے والی نئی اداکارہ کا جو ٹریلر میں بھی ہیں اور ’سنبھل سنبھل‘ والے گانے میں بھی۔

فلم کا ایک منظر — فوٹو اسکرین گریپ

اس کردار کی اہمیت کیا ہوگی یہ بھی فلم دیکھنے کے بعد ہی واضح ہوگا۔ فلم کے ٹریلر میں مختاراں مائی کے علاوہ دو اور کریکٹرز دِکھے جن کو خبریں دیکھنے والے جانتے ہیں۔ ان میں ایک ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ فوزیہ سعید دوسرے کورٹ میں بیٹھے سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی ان کے کردار یا جھلک بھی فلم کو حقیقت سے قریب تر کرنے میں کام آئیں گے۔

پاکستانی فلم انڈسٹری کی خوش قسمتی ہے کہ اس سال ’چلے تھے ساتھ‘ میں سائرہ شہروز، ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ میں مہوش حیات اور ’ورنہ‘ میں ماہرہ خان جیسے مضبوط، خوبصورت اور مختلف کردار سامنے آئے۔

ابھی ”ارتھ ٹو“ کے ٹریلر سے عظمی حسن نے بھی انٹری دے دی ہے اور ان چاروں میں بھی مہوش حیات کے کردار کوماہرہ خان کا کردار ہر ایوارڈ میں چیلنج کرے گا اور بد قسمتی سے سب ایوارڈز میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ایک ہی ہوتا ہے۔

ویسے ’ویمن اورینٹیڈ‘ یا ’ویمن سینٹرک‘ فلمز پاکستان میں اب سے نہیں برسوں سے بن رہی ہیں، نورجہاں کی ’کوئل‘ ہو یانیر سلطانہ کی ’سہیلی‘، شمیم آراء کی ’ہمراز‘ ہو یا پھر شبنم کی ’زینت‘، رانی کی ’انجمن‘، بابرہ شریف کی ’مہمان‘ اور حمیمہ کی ’بول‘ ان میں قابل ذکر ہیں۔

کسی بھی فلم کی ریلیز کی ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے  اور ’ورنہ‘ کی ریلیز کے وقت ہالی وڈ کے گندی نظر والے طاقتور اور بڑے پروڈیوسر ہاروی وینسٹن کی ”حرکتوں“ اور ”زبردستی “ کیخلاف اٹھنے والی آوازوں کی بھی گونج ہے اور ہمارے ملک میں طاقت رکھنے والوں اور لمبی لمبی گاڑیوں کے پروٹوکولز کی بھی۔

ان سب سے اور ”می ٹو“ کے ٹرینڈ سے بھی دیکھنے والوں کیلئے فلم کی اہمیت اور بڑھے گی، ماہرہ اور رنبیر کی تصویروں اور خبروں سے بھی فلم کو انجانے میں سہی لیکن بڑی، زیادہ اور مفت کی پبلسٹی ملی ہے۔

فلم کی ریلیز نہ تو کسی عید پر ہورہی ہے اور نہ ہی کسی بھی اور چھٹیوں والے دن لہذا اس فلم کی کامیابی سے باقی فلم بنانے والوں کو بھی حوصلہ ہوگا کہ وہ اپنی فلم صرف عید کے تین دنوں کی اوپننگ کیلئے نہ بنائیں۔

فلم کی مرکزی کاسٹ ماہرہ خان اور ہارون شاہد — فوٹو:فلم فیس بک اکاؤنٹ

فلم کا بجٹ ابھی تک سامنے نہیں آیا لیکن یہ یقینا اس سال کی دو ”مہنگی “ فلموں پنجاب نہیں جاؤں گی اور نامعلوم افراد2 اور سب سے مہنگی فلم فلم ”یلغار“ سے کافی کم ہوگا۔

ورنہ کے ٹریلر کے آخر میں ماہرہ کا انداز جیت کی داستان کی دستک کا بتاتا ہے لیکن فلم کا ”دی اینڈ“ جو بھی ہو چونکا دینے والا ہوگا، جگا دینے والا ہوگا اور سوچنے پر مجبور کرنے والا ہوگا۔

شعیب منصور کی فلمیں ”خدا کیلئے“ اور ”بول “ دیکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ وہ فلم سے جُڑنے اور فلم کو دل سے پسند کرنے کے باوجود سینما سے مسکراتے ہوئے قہقہے لگاتے ہوئے باہر نہیں آئے گا ۔وہ سب کو فلم دیکھنے کیلئے پیغام دیتے ہوئے کہہ رہا ہوگا کہ اس فلم کو دیکھ لو اور سیکھ لو ”ورنہ‘۔

نوٹ :

1۔۔ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا، اُس فلم کیلئے کام کرنے والا فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے ۔

2۔۔ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے ۔فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما میں ہی آتا ہے، آ پ کے ٹی وی، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔

3۔۔فلم یا ٹریلر کا ریویو صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ ہوتا ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی۔

4۔۔غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں لہذا آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں ۔

5۔۔فلم کے ٹریلر اور فلم میں بہت فرق ہوتا ہے کیوں کہ فلم کے ٹریلر کو دیکھ کر فلم کی کہانی بتانے کے اندازے زیادہ تر غلط ثابت ہوتے ہیں۔

اپنی رائے کا اظہار کرتے جائیں:



مزید خبریں :