سرفراز سے انصاری تک

قومی کرکٹ کپتان سرفراز احمد: فائل فوٹو۔

شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں 20 اکتوبر کی ایک گرم ترین دوپہر جب میں داخلی دروازے پر گاڑی سے اترا تو جیو نیوز اسپورٹس ڈیسک سے راجو کا فون آیا۔

 انہوں نے کہا کہ بس یحییٰ بھائی آپ کی لائن ٹرانسفر کر رہا ہوں، اسٹوڈیو میں سکندر بخت اور فاطمہ سلیم ہیں، دونوں سے ابھی بات کرتے ہوئے میں اسٹیڈیم میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ عرفان انصاری کو سامنے سے آتا دیکھ کر رک گیا۔

 وہ بھی مجھے فون پر گفتگو کرتے دیکھ کر رک گئے، بات کرتے ہی میں نے ان کے جواں سالہ بیٹے کی وفات پر تعزیت کی۔ عرفان انصاری کا بیٹا پاکستان سوپر لیگ کے پہلے سیزن میں ایک فرنچائز سے وابستہ تھا، جو روڈ ایکسیڈنٹ میں گزشتہ سال انتقال کر گیا تھا۔ عرفان انصاری یو اے ای کرکٹ ہی نہیں پاکستانی کرکٹرز کے لئے کوئی انجان نام نہیں ہے۔

گزشتہ سال ان سے میری ملاقات سیالکوٹ میں بھی ہو چکی تھی، جہاں وہ اسپورٹس کا سامان خریدنے آئے تھے، البتہ میرے لئے یہ خبر ضرور حیران کن تھی کہ انہوں نے قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کو فکسنگ کی پیش کش کی، جس کے بعد سرفراز نے پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کو آگاہ کیا۔

بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد میں نے اپنے دوست کاشف کو فون کیا۔ جو دبئی میں کرکٹ کھیلتا ہے اور ان سے عرفان انصاری کا نمبر طلب کیا ، حالانکہ دبئی میں پندرہ سال سے آجا رہا ہوں لیکن عرفان انصاری سے ملاقات صرف اس وقت ہی ہوئی جب وہ اسٹیڈیم یا کسی تقریب میں ملے۔

 نمبر ملتے ہی میں نے عرفان انصاری سے سرفراز کی پیش کش پر بات کی تو وہ پہلے تو منع کرتے رہے، بعد میں بولے ممکن ہے ، ہوسکتا ہے کہ مذاق میں ایسی بات کہہ دی ہو۔

 جیو نیوز پر اس خبر کے چلنے کے بعد جب عرفان انصاری نے میرا فون اٹھانے اور سرفراز کو پیش کش کی تردید نہیں کی تو واضح ہو گیا کہ گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھانے میں لگا تھا۔

 اس معاملے میں سرفراز احمد کے اقدام کی درحقیقت تعریف کرنا ازحد ضروری ہو گا، جنھوں نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور عرفان انصاری کے ساتھ ماضی کے تعلقات کو پس پشت ڈال کر رپورٹ کرنے کو ترجیح دی۔

 ممکن ہے عرفان انصاری اور سرفراز کی اس ملاقات کا کوئی تیسرا کردار دونوں کی گفتگو میں نہ ہو، تاہم سرفراز نے بروقت واقعے کی اطلاع کر کے اپنے مضبوط کردار کا ایک اور واضح پیغام دیا۔ البتہ اس سارے معاملے میں یہ خبر زبان زد عام ہونا افسوس ناک امر تھا۔ 

درست صحافی کا کام خبر کی تلاش ہے، البتہ اس سارے قصے میں سرفراز تک بطور کپتان پیش کش اور میڈیا میں خبر لیک ہونا، پی سی بی کی مینجمنٹ کی کمزوری کی ایک اور بڑی مثال ہے۔

 عرفان انصاری ماضی میں پاکستان کے کئی کھلاڑیوں کو دبئی، شارجہ کرکٹ کھیلنے کے لئے بلاتا رہا ہے، کئی سابق کرکٹرز ہی نہیں پی سی بی کے ساتھ اس شخص کے مراسم ڈھکے چھپے نہیں۔ موصوف یو اے ای میں نیٹ پریکٹس کے دوران قومی ٹیم کو بولرز فراہم کیا کرتے تھے۔ دبئی میں خالد اور شرجیل کیس میں جس یوسف نامی شخص کا نام سامنے آیا، وہ بھی انگلینڈ میں مقیم شخص نہیں تھا، اس کے بھی کئی کھلاڑیوں سے برسوں پرانے مراسم تھے، جس کی آڑ لے کر اس نے دو کرکٹرز کے کیریئر سے کھلواڑ کیا۔

 2010 کے دورہ انگلینڈ میں مظہر مجید اور سلمان بٹ کے قصے کی کہانیاں تصاویر میں عیاں ہیں۔ سلمان بٹ کو مہنگے تحائف سے لے کر اسپاٹ فکسنگ کے گھناؤنے فعل کو عملی جامہ پہنانے والے مظہر مجید کے بھائی اظہر مجید 2006 کے دورہ انگلینڈ میں قومی ٹیم کے اہم کھلاڑیوں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ان کرکٹرز میں بہت سے اس وقت قومی ٹیم اور بورڈ سے بطور ملازم منسلک ہیں۔

 اصل نکتہ یہ ہے کہ سٹے بازوں کے ایجنٹ ہر گز انجان شخص نہیں ہوتے وہ کھلاڑیوں کے قریب اور ان کے اعتماد رکھنے والے افراد ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی گھنائونے عمل کی سازش کرتے ہیں تو کھلاڑیوں کو سرفراز احمد کا طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر ان کا کیریئر اندھیروں میں جانے کا ہر وقت خطرہ موجود ہے۔ 

حالیہ عرصے میں پاکستان کرکٹ کے حوالے سے اسپاٹ فکسنگ یا میچ فکسنگ کے جتنے معاملات سامنے آئے ہیں اس میں کچھ انجان شخص کے برعکس ایسے لوگوں سامنے آئے ہیں جو اس کھیل سے جڑے لوگوں کے ساتھ خاصی قربت کے حامل رہے ہیں۔

  حیران کن امر یہ ہے کہ جس بھارتی بکی انو بھٹ سے تعلق کے سبب ٹیسٹ لیگ اسپنر دانش کنیریا پابندی کی زندگی گزار رہا ہےاس کی تصاویر قذافی اسٹیڈیم کی اس گیلری میں کھینچوائی گئی ہیں جس کا اندرونی دروازہ پی سی بی کے اعلی افسران کے کمرے میں کھلتا ہے۔

 فکسنگ کے معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی بہت سی پالیسیوں پر تضاد موجود ہے۔ قومی ٹیم کے ایک سابق کپتان آج بھی ٹیم کا حصہ ہیں، جن کے بینک اکائونٹ اور مالی تفصیلات کا ماضی میں پی سی بی اینٹی گریٹی کمیٹی کو حوصلہ افزا جواب نہیں مل سکا تھا۔ 

سوال یہ ہے کہ آئی سی سی اور پی سی بی کی ساری ذمہ داری کھلاڑیوں کو لیکچر دے کر اور سیکیورٹی افسر ٹیم کو فراہم کر کے ختم ہو جاتی ہے۔ متعلقہ بورڈ کو جو کھلاڑی مشکوک شخص اور اس کی پیش کی رپورٹ کرے اس کا نام تک صغیہ راز میں نہ رکھنا کیا اس کھلاڑی کے ساتھ دشمنی کے مترادف نہیں ۔اس کھلاڑی کی سیکیورٹی کا ذمہ دار کون ہے؟ 

ماضی میں اظہر علی اور محمد حفیظ نے محمد عامر کی واپسی پر آواز اٹھا کر اپنا نام ہمیشہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں درج کروا دیا ہے۔

مزید خبریں :