بلاگ
Time 07 نومبر ، 2017

فیض عام ء2027

جیو نیوز السٹریشن

ایچ جی ویلز کی سائنس فکشن ’’ٹائم مشین‘‘ ہو یا ایرانی بادشاہ جمشید کا جادوئی پیالہ ’’جام جم‘‘ دونوں آئیڈیاز میں مستقبل کو پڑھنے کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ اسی تصور کے تحت ماضی کو پڑھا جانا بھی ممکن ہے۔ زمان و مکان کی حدود کو عبورکرتے ہوئے انسان تصوراتی طور پر کسی بھی خاص دور کے حالات کو جان سکتا ہے۔ آیئے جام جم کے ذریعے سے 2027ءمیں چلتے ہیں اور 2017ءسے لے کر ایک دہائی آگے تک کے سیاسی سفر کی داستان کو جانتےہیں۔

٭پہلا منظر7:نومبر 2027ء :بمقام جاتی امرا رائے ونڈ

ہلکی ہلکی سردی کاموسم، گھر کے وسیع سرسبز لان میں دوکرسیوں پر 78 سالہ بابا ئے مزاحمت نواز شریف اور 76سالہ بابائے مفاہمت شہبازشریف بیٹھے ہیں۔ دونوں کا موڈ انتہائی خوشگوارہے۔ سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد دونوں بھائی اپنا بہت سا وقت اکٹھا گزارتے ہیں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں اور خوبیوں پر بھی بحث کرتے ہیں۔ 

شہباز شریف 76سال کے ہونے کےباوجود بھائی کا بہت احترام کرتے ہیں۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کو ہندوستانی گانے بھی سناتے ہیں۔ نواز شریف کی آواز میں درد اور ُسر دونوں ہیں۔ اس لئے جب وہ کھلی فضا میں کشور کاگانا سناتے ہیں تو شہباز شریف جھومنے لگتے ہیں۔ 

شہباز بھی کم سُریلے نہیں وہ جب کوئی رومانوی گانا سناتے ہیں تو ان کے مسکراتے چہرے اور ان کی چمکتی آنکھوں سے ماضی کی کئی داستانیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ بڑھاپے کے باوجوددونوں بابوں کا کھانے کا ذوق اب بھی برقرار ہے۔ 

نواز شریف پلاؤ کی بوٹیاں شوق سے کھاتے ہیں جبکہ شہباز شریف اوجھڑی بہت پسندکرتے ہیں۔ 

دونوں بھائیوں میں 2017نومبر، یعنی دس سال پہلے کے واقعات زیربحث آگئے۔ نوازشریف بھائی کو کہنے لگے کہ میرا نظریاتی فیصلہ بالکل صحیح تھا۔ 

چھوٹے بھائی نے آہستہ سے کان میں کہاخدا کی مدد نہ آتی توہم سارے خاندان والے شکنجے میںآجاتے۔ ہماری انڈراسٹینڈنگ نہ ہوتی توہم کبھی نہ بچتے۔ ہماری ظاہری لڑائی سے ہی ہم نے وقت کا فائدہ اٹھایا اور یوں مشکل وقت گزار کر ہم نے دوبارہ سیاسی قوت جمع کرلی۔ پھر دونوں بھائیوں نے مل کر قہقہہ لگایا اور کھانے میں مصروف ہوگئے۔

٭دوسرا منظر7:نومبر 2027ء :بمقام مزار لعل شہباز قلندر

کالے چولے پہنے اور سرخ پٹکے لئے ایک ٹولی لعل شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینے آرہی ہے۔ ٹولی کے بیچوں بیچ لمبی سی داڑھی والے آصف زرداری ہیں جو دنیا کو تیاگ کر کئی سالوں سے ملنگ بن چکے ہیں۔ 

سندھڑی میں ہی رہتے ہیں اور وہیں جھونپڑی میں سوتے ہیں۔ جت بلوچ قبیلے سے تعلق کی وجہ سے قبائلی رواج کے طور پر ایک اونٹنی اور ایک بکری ان کے ساتھ رہتی ہے۔ روٹی سالن چھوڑ کر اب وہ صرف بکری اور اونٹنی کے دودھ پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ اپنی ساری دولت اور جاگیروں سے بے نیاززندگی کے آخری دن ملنگی میں گزارنا چاہتے ہیں۔ 

2023ءکے الیکشن میں بلاول بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوگیا ہے لیکن بابا زرداری نہ تو اسلام آباد گئے اور نہ کراچی، بس سندھڑی ہی سے دعا کر دی۔

٭تیسرا منظر: بمقام بنی گالہ

77 سالہ بابا عمران خان جسمانی طور پرمکمل فٹ ہیں۔ اب بھی روزانہ میلوں دوڑ لگاتے ہیں۔ چہرے پر نور برستا ہے۔

 2018ء کے الیکشن میں ان کو حکومت مل گئی تھی انہوں نے ہرطرف اربوں درخت لگوادیئے۔ سیاحت کو فروغ دیا۔ بیرون ملک پاکستانیوں نے بہت سے فنڈزبھیجےاور یوںپاکستان ایک نئے راستے پر گامزن ہو گیا۔

کپتان نے حکومت کے خاتمے پر سیاست سے ریٹائرمنٹ لےلی اور بنی گالہ میں ایک روحانی سنٹر کھول لیا۔ 

ان کے مریدین میں مرداور عورتیں دونوں شامل ہیں لیکن عورتیں زیادہ بڑی عقیدت مند ہیں۔ بابا عمران کے فٹ نس نسخے ملک بھرمیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے ہیں۔ 

جس کی وجہ سے سو سالہ سنیاسی باباکے نسخوں کی مارکیٹ بہت نیچے چلی گئی ہے۔ بابا عمران اب باریش ہیں۔ عام طورپر سفیدچوغے میں ملبوس رہتےہیں۔شعائر اسلام کی مکمل پابندی کرتے ہیں اورہاتھ میں ہر وقت تسبیح ہوتی ہے۔

٭چوتھامنظر:منظم عمارتوں کی چاردیواری بمقام راولپنڈی

ایک کانفرنس روم میں 16افراد سرجوڑ کر بیٹھے ہیں۔ چار ستاروں والے مقرر نے میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں امن انقلاب کی پہلی اینٹ اس وقت رکھی گئی جب فیصلہ سازوں نے پہلی بار یہ فیصلہ کیا کہ وہ سویلین حکومت کو نہیں ہٹائیں گے۔ آئین کی پابندی کریں گے۔ 

اس وقت کئی ٹیکنوکریٹ صلاح دیتے رہے کہ مارشل لا لگا دیں یا ٹیکنوکریٹ حکومت بنا کر اسے دوسال دیں تاکہ وہ سارا گند صاف کردے مگر ملک کے طاقتور ادارے نے فیصلہ کیا کہ نہیں اب آئین سے روگردانی نہیں کرنی۔ (تالیاں) 

پارلیمان اور اداروں دونوں کا احترام ہونا چاہئے۔ قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ (تالیاں) 

بس یہ وہ انقلابی لمحہ تھا جب نئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ اب 2027ء میں ساری دنیا پاکستان پر اعتماد کرتی ہے۔ ملک میں اس قدر سرمایہ کاری آ رہی ہے کہ سنبھالنا مشکل ہو رہی ہے۔ 

پاکستان ایک مثالی ملک بن چکا ہے۔ بھارت، افغانستان اور ایران سے ہمارے تعلقات بہت ہی اچھے ہیں۔ 

سی پیک نے اقتصادی ترقی میں بڑی مدد کی۔ امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی روٹ کھلوانے میں بڑی مدد کی۔ تاریخ میں کبھی پاکستان تجارتی راہداری کی حیثیت رکھتا تھا اب دوبارہ سے اسے وہی مقام مل گیا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں کافی پیش رفت ہو رہی ہے۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کی سرحدوں کو نرم کرکے مشترکہ پارلیمان تشکیل پاچکی ہے۔ 

سنٹرل ایشیا سے آنے والا سامان بمبئے اور گوادر کی بندرگاہوں تک بلا روک ٹوک جارہاہے۔ دہشت گردی کے واقعات تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ (تالیاں۔ تالیاں)

باقی دنیا میں یہ فیصلہ بہت پہلے ہوچکا تھا ہم نے 2017میںبالآخر یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ آئین سپریم ہے اور فوج کا کام صرف ریاست کی مدد اور حفاظت کرناہے۔جب سے یہ فیصلہ ہواہے پاکستان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔

دبئی میں جا کر روزی کمانےوالے پاکستانی اپنے ملک واپس آچکے ہیں کہ اب یہاں مزدور کی کمائی وہاںسے زیادہ ہے۔ کئی اوورسیز پاکستانی اپنے ملک واپس آ کر یہاں روزگار کمارہے ہیں۔ بازار بھرے ہیں، سڑکوں پررش ہے، گلیوں میں قہقہے ہیں، کیاریوں میں نئے پھول کھلے ہیں۔ راتوں کو شہر بجلی کے قمقموں سے روشن ہوتے ہیں ستیس خیرا نے بس دعا کریں ایسا ہی رہے۔ (تالیاں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔