بلاگ
Time 07 نومبر ، 2017

ہمارا جانور ان کا!

—فوٹو:فائل

پیٹ فوڈ مینوفیکچرر ایسوسی ایشن کی 2017 میں شائع ہونے والی ’پیٹ ڈیٹا رپورٹ 2017 ‘ کے مطابق برطانیہ میں پالتو جانوروں کی تعداد 54 ملین سے زیادہ ہے۔

 برطانیہ کے 44 فیصد گھروں میں کسی نہ کسی طرح کا پالتو جانور پایا جاتا ہے اور یہاں لوگ اپنے پالتو جانوروں سے کتنا پیار کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ کے لوگ ایک سال میں صرف پالتو جانوروں کے لوازمات پر ایک ارب پاؤنڈز سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔

جانوروں کی بہبود کے لئے قانون سازی بہت سوچ سمجھ کر کی گئی ہے اور " دی اینیمل ایکٹ 2006 " میں ایسے عمومی قوانین شامل کئے گئے ہیں جن میں ہر طرح کے جانور کی فلاح و بہبود کا خیال رکھا گیا ہے۔

قانون تو پیارے وطن پاکستان میں بھی موجود ہے مگر قانون پر عمل کتنا کیا جاتا ہے یہ بات آپ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں، عموماً پوری دنیا میں جب کوئی خاندان جانور پالنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس بات پر توجہ دی جاتی ہے کہ کون سا جانور پالنا چاہیے۔

اس کا کیسے خیال رکھنا ہوگا، جانور کیا غذا کھائے گا، گھر والے اس جانور کو برداشت کر پائیں گے یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔لیکن ہمارے ہاں ایسے نہیں سوچا جاتا بلکہ جانور کے ساتھ جانوروں والا سلوک کیا جاتا ہے اور اکثر جانور اور جانوروں کے مالکان پریشان رہتے ہیں۔

میں نے پاکستان میں لوگوں کو اچھی اچھی نسل کے غلط جانوروں پر لاکھوں خرچ کرتے دیکھا ہے، اگر آپ روس سے ایک ایسے کتے کو لاہور امپورٹ کریں گے جو منفی 20 ڈگری میں پیدا ہوا ہے تو اسے اے سی میں بھی رکھا جائے تو وہ جلد اللہ کو پیارا ہوجائے گا۔

گھر میں کون سا پالتو جانور رکھا جائے یہ فیصلہ ان باتوں پر منحصر ہونا چاہیے کہ آپ کا گھر، آپ کے مذہبی عقائد، آپ کی تعلیم، آپ کے معاشی حالات، آپ کے ملک کا موسم، گھر میں چھوٹے بچے اور آپ کی دادی۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ پیارے وطن میں بچوں یا بوڑھوں کو یہ بتانے والا کوئی نہیں ہے کہ جانوروں سے کیسا سلوک کرنا چاہیے  کیوں کہ کوئی شخص اپنے جانور کو محلے میں گھمانے نکل جائے تو بچے کیا بزرگ بھی ایسے ایسے احمقانہ سوال اور باتیں کرتے ہیں کہ اگر جانور کو سمجھ آجائیں تو پلٹ کے کاٹ لے۔

میں اس اذیت سے گزر چکا ہوں اور  ہم نے بھی پاکستان چھوڑنے سے پہلے زمانے سے ٹکر لے کر ایک کتا پالنے کی جسارت کی تھی جس پر پورے خاندان نے مل کر سازشیں کیں، جذباتی بلیک میل کیا، علمائے کرام کے فتوے سامنے رکھے گئے، اخبارات کی وہ کٹنگز ہمارے سامنے رکھی گیں جن میں کتے، بلیوں اور گھوڑوں نے اپنے ہی مالکان پر حملہ کردیا تھا۔

غرض یہ کہ سب کی مکمل توجہ اس بات پر تھی کہ کس طرح اس جانور سے جان چھڑائی جائے، آخر کار جب کسی حربے نے کام نہیں کیا تو ہماری اکلوتی دادی نے فیصلہ کیا کہ اب وہ ہمارے نجس گھر میں قدم نہیں رکھیں گی۔ انہوں نے برکت کے فرشتوں کو ہمارے گھر سے ہمیشہ کے لئے جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔

دادی اور برکت دونوں ایک ساتھ گھر سے غائب ہوجائیں تو ذرا مشکل ہوجاتی ہے اس لئے ہم نے ایک ہفتے رونے اور لڑنے کے بعد ہار مان لی اور صرف 10 مہینے بعد ہی اپنے عزیز پالتو کتے ’ٹو ٹو‘ کو اپنے سے دور ایک محفوظ جگہ بھیج دیا۔

جب ٹوٹو ہمارے گھر آیا تو میں اسے محلے میں چہل قدمی کروانے کے لئے نکلا کرتا تھا تو بچوں کا ایک ہجوم ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگتا تھا۔

ٹوٹو کو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ سب لوگ اسے گھیر کر کیوں کھڑے ہوجاتے ہیں اور سوال ایسے کہ جی خوش ہوجاتا تھا، انکل انکل یہ کتا ہے؟

دل چاہتا تھا کہ کہہ دوں ’نہیں بیٹا آپ کے ماموں ہیں کل ہی دبئی سے واپس آئے ہیں‘۔ 

یا پھر  ’یہ امریکن نسل ہے؟‘۔ خون کھول جاتا تھا۔ ’نہیں بیٹا وہ تو سب اسلام آباد شفٹ ہوگئے ہیں‘۔ بہرحال میں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

 کچھ ہی عرصے میں میں نے بچوں کو ٹوٹو سے ملنے اور ٹوٹو سے کھیلنے کے صحیح طریقے سکھا دیے تھے اور محلے کے بچے دیر تک اس کے ساتھ کھیلتے اور اکثر اسے خود گھمانے پھرانے لے جایا کرتے تھے۔

سب کچھ صحیح چل رہا تھا کہ ایک دن ہماری دادی کی ایک دوست ہمارے گھر آئیں اور ٹوٹو صرف 10 مہینے کا تھا، ٹوٹو نے حسب عادت ان کا استقبال کیا۔

استقبال ہی کیا تھا کہ آنٹی ایسے چت ہوئی کہ منہ پر پانی وغیرہ ڈال کر ہوش میں لایا گیا اور پھر وہ روتی ہوئی گھر سے چلی گئیں اور کچھ منٹ بعد ایک فون آیا اور مجھ سے کہا گیا کہ اب تمہاری ایک نہیں چلے گی۔

آنٹی اگر مر جاتی تو اس کی ذمہ داری ٹوٹو پر عائد ہوتی اس لئے قاتلانہ حملہ کرنے کے جرم میں ہماری دادی نے سخت فیصلہ سنا دیا اور ہم اپنے سب سے اچھے دوست سے محروم ہوگئے۔

برطانیہ میں حالات بالکل مختلف ہیں، نہ کوئی جانور کسی کو دیکھ کر چونکتا ہے اور نہ ہی لوگ جانوروں سے گھبراتے ہیں اور نہ ہی استقبال کرنے پر چت ہوتے ہیں۔

اگر کوئی جانوروں کا ڈاکٹر ہو تو کوئی شخص اس کا مذاق نہیں اڑاتا۔

جب میں نیا نیا برطانیہ پہنچا تو جانوروں کی زندگی دیکھ کر عش عش کر اٹھا اور کتے، بلیوں کے بیوٹی پارلر، ہوٹل، اسپتال وغیرہ دیکھ کر دنگ رہ گیا، مگر اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔

جانوروں کے فلاحی ادارے ( آر ایس پی سی اے ) کی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر سال جانوروں پر ہونے والے ظلم کی اور جانوروں کو نظر انداز کرنے کی ایک لاکھ پچاس ہزار سے زاہد شکایت موصول ہوتی ہیں۔

صرف 2016 میں ( آر ایس پی سی اے ) نے ایک لاکھ تیس ہزار جانوروں کو ظلم سے بچایا اور اس پڑھے لکھے معاشرے میں بھی جانوروں پر ظلم کی ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔

اگر کوئی برطانوی شہری کراچی میں حکومت کی کتا مار مہم کی کامیابی کے بارے میں سن لے یا تصویریں دیکھ لے تو اس کی چیخیں نکل جائیں گی، کچھ عرصے پہلے ایک انگریز دوست نے مجھے فیس بک کی ایک ویڈیو دکھائی جس میں چند محب وطن پاکستانی ایک شیر کو پنجرے میں بند کرکے نواز شریف کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں اور اس کے پنجرے کے قریب پٹاخے پھوڑ رہے ہیں۔

میرا انگریز دوست حیران بھی تھا اور پریشان بھی، میرا دوست جانوروں سے بے حد محبت کرتا ہے اور افریقا میں شیروں کو بچانے کے لئے بہت پیسے خرچ کر چکا ہے۔

 سب جانتے ہیں کہ اب اس دنیا میں گنتی کے چند شیر رہ گئے ہیں اس میں دو تین کو پاکستان میں پی ایم ایل (ن) سے بے انتہا محبت کرنے والوں نے اے سی والے کمروں میں بند کر رکھا ہے اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔

میں نے اسے بتایا کہ شیر ان کا انتخابی نشان ہے اس لئے انہوں نے اس جانور کو پنجرے میں جکڑ رکھا ہے، پہلے وہ ہنسا پھر مجھے حیران آنکھوں سے دیکھنے لگا۔

میں نے اسے کہا شکر کرو ہماری اپوزیشن جماعت یہاں اس جلسے میں موجود نہیں تھی ورنہ وہ اس معصوم جانور کی پٹائی کر دیتے کیونکہ ان کا انتخابی نشان ہے بلا۔

ویسے مئی 2013 میں مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم میں لوگوں کی توجہ کا خاص مرکز بننے والا سفید ٹائیگر بھی الیکشن سے تین روز قبل مر گیا تھا اور رپورٹ کے مطابق اس وقت ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا تھا کہ شور، روشنی، درجہ حرارت اور دن بھر کی تھکان شیر کی موت کی وجہ بنی۔

لکھاری حیدرجناح برطانیہ مقیم ہیں اور ایک بینکر ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔