بلاگ
Time 15 نومبر ، 2017

حضور شوق سلامت رہے شہر اور بہت

قومیت کا نعرہ لگانے والوں کو پاکستانیت کا خیال کیسے آیا؟ کہانی ختم ہونے کو ہے یا اسٹوری میں کو ئی نیا موڑ آیا ہے ؟ وقت کی گرہیں کھلیں گی تو تما م جوابات خودبخود سامنے آجائیں گے.

مگر ایک بات طے ہے فاروق ستار اور مصطفٰی کمال کی مشترکہ پریس کانفرنس دلوں کا سودا ہرگز نہ تھی بلکہ حالات کا جبر انہیں یہاں تک لایا۔عباس تابش نے کہاتھا،،،

’ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا

دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے‘

پی ایس پی اور ایم کیوایم میں پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب مصطفٰی کمال سندھ حکومت کے خلاف ’خیالی ملین مارچ‘ بری طرح ناکام ہوا  اور کراچی کے مسائل پر کیا جانے والا ’دھرنہ اور ملین مارچ‘صرف چند ہزار لوگوں کے دل کی آواز بن سکا۔

پندرہ سو گاڑیوں میں دوہزار لوگ شارع فیصل کی ٹریفک برباد کرنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے تو مصطفٰی کمال کی آنکھیں کھل گئی اور انیس قائمخانی حرکت میں آئے اور فاروق ستار کے دروازے پر دستک دے دی۔

پرانے دوست کو گھر کی چوکھٹ پر کھڑا دیکھ کر فاروق ستا ر کی آنکھیں نم ضرور ہوئیں مگر بات آگے نہ بڑھ سکی، وقت کا پہیہ چلتارہا اور وہ دن آن پہنچا جب کراچی جیسے شہر میں ایم کیوایم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پیپلز پارٹی کے سعید غنی فاروق ستار کی ناک تلے سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ لے اڑے تو الطاف حسین کے جانشین کی چیخیں نکل گئیں اور دوڑے دوڑے انیس قائم خانی کے پاس پہنچے جو پہلے ہی داد رسی کے لیے تیار کھڑے تھے۔

یوں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور بات مشترکہ پریس کانفرنس تک آپہنچی۔ مرزا غالب یاد آتے ہیں، 

’وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو‘

مصطفٰی کمال کراچی آئے یا لائے گئے یہ بحث اور کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

 سردست ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان کا پیغام کراچی والوں کو اپنی جانب کیوں مائل نہ کر سکا؟ پاکستانی پرچم میں لپٹی ان کی پارٹی پاک سر زمین پر قدم کیوں نہ جما سکی؟ انہیں کیوں ان کرداروں کی جانب دیکھنا پڑا جو کراچی کی خرابی کے اصل ذمہ دار ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ مصطفٰی کمال جذباتی ہیں اور رجعائیت پسند بھی۔

زمینی حقائق کا ادراک کیے بغیر بات کرنا ان کی پرانی عادت ہے اور مصطفٰی کمال کو شاید معلوم نہیں سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔

بسا اوقات وقت سے پہلے کیے ہوئے درست فیصلے بھی گلے کا طوق بن جاتے ہیں، یہاں مصطفٰی کمال سے دوبنیادی غلطیاں ہوئیں۔ 

ایک انہوں نے الطاف حسین کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا جب مہاجر یہ سننا نہیں چاہتے تھے جس کا نتیجہ کمزور عوامی حمایت کی صورت میں سامنے آیا۔

دوسری غلطی انہوں نے فاروق ستار کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے کی، انہیں الطاف حسین کی باقیات کو گلے لگانے میں اتنی جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

جیسے جیسے کراچی کے حالات ٹھیک ہورہے ہیں ایم کیوایم کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ پارٹی الطاف حسین کی مٹھی سے ریت کی طرح سرک چکی ہے ، امید کا ایک دیا نفرتوں کے دو چراغوں کو بجھا رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں جیسے جیسے ایم کیو ایم تقسیم ہو رہی ہے ووٹ بنک بھی بٹ رہا ہے۔ مصطفٰی کمال کے حصے میں بھی بہت کچھ آنے والا تھا انہیں پی ایس پی ختم کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی ؟ ان کے اس جذباتی اور بے وقت فیصلے نے انہیں ایک سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔

سیاست جہد مسلسل کا نام ہیں ، ڈٹے رہیں تو کامیابی ایک دن ضرور آپ کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے، یقین نہیں آتا تو عمران خان کی سیاست پر نظر دوڑا لیں  تو تمام ابہام اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

مصطفٰی کمال کا نظریہ جتنا واضح اور ارادے جتنے پختہ ہیں ان کا عمل اتنا ہی مشکوک کیوں ہے؟ مسائل کے حل کے لیے لڑتے لڑتے انہیں کراچی والوں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑکنا چاہیے تھا اور انہیں اس بات کا احساس ضرور ہونا چاہیے کہ کراچی میں صرف اردو بولنے والے نہیں بستے۔

ایم کیوایم کے سیاسی سفر پر جب بھی بات کرنی ہو کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم ضرور یاد آتے ہیں ۔ ان کا ایک شعر ایم کیوایم کی سوچ کو برہنہ کر دیتا ہے ۔

’شہر کرے طلب اگر تم سے علاج تیرگی

صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو‘

ایم کیوایم سے پہلے کا کراچی بھی اتنا پرامن نہ تھا کیونکہ جماعت اسلامی یہاں ڈنڈے سوٹے کی سیاست کیا کرتی تھی مگر جب سے کراچی کا اختیار ایم کیو ایم کے ہاتھ آیا ہے اس شہر کو تو جیسے نظر لگ گئی ہو۔

بوری بند لاشیں، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری نے پاکستان کے معاشی حب کو پوری دنیا میں بدنام کیا۔ کیا مصطفٰی کمال نہیں جانتے کراچی کو بدامنی کی بھٹی میں کس نے جھونکا ؟ لسانی بنیادوں پر قتل عام کس کے ایماء پر ہوا ؟ پٹھانوں، کچھیوں اور بلوچوں کا جینا حرام کس نے کیا؟ کیا مصطفٰی کمال نہیں جانتے بلدیہ فیکٹری میں سیکڑوں لوگ کیسے زندہ جلائے گئے؟

بارہ مئی کو نہتے شہریوں پر گولیاں کس کے کہنے پر چلائی گئی ؟ کیا وہ سارے کردار آج بھی ایوانوں میں نہیں بیٹھے ؟ مصطفٰی کمال اگر یہ سب جانتے ہیں تو وہ پی ایس پی کے اتحادی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ مگر مصطفٰی کمال بھی یہاں کیا کمال کر سکتے ہیں وہ تو خود اس سسٹم کا حصہ رہے ہیں۔

جب لندن سے کراچی بند کرنے کا حکم آتا تھا تو مصطفٰی کمال، انیس قائمخانی، رضا ہارون، فاروق ستار، عامر خان اور فیصل سبزواری سبھی جی بھائی جی بھائی کرتے تھے، شہر کی پرواہ کس کو تھی ؟

’لگا کر آگ شہر کو یہ بادشاہ نے کہا

اٹھا ہے دل میں آج تماشے کا شوق بہت

جھکا کر سر کو سبھی شاہ پرست بول اٹھے

حضور شوق سلامت رہے شہر اور بہت‘

کھیل ابھی ختم نہیں ہوا اور نہ ایم کیو ایم پی ایس پی کا نکاح ٹوٹا ہے، ابھی تو اس فلم کے سارے بڑے کردار ملک سے باہر بیٹھے ہیں، وہ کب پاکستان آئیں گے اور اس فطری اتحاد کی سربراہی کریں گے یہ تو شاید مصطفٰی کمال اور فاروق ستار بھی نہیں جانتے۔

ہر دو سال بعد مشہور زمانہ "کراچی "نامی فلم کا سیکوئل بنتا ہے ، رائٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر نہیں بدلتا صرف کاسٹ تبدیل کی جاتی ہے  اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

یہ تماشا جو چند دن پہلے ہوا یہ سکرپٹ کا حصہ تھا ، لوگوں کاردعمل دیکھنے کے لیے کہانی میں موڑ آیا ہے ، ناظرین حوصلہ رکھیں یہ وقتی دوری ہے اگلے الیکشن سے پہلے پہلے سب بھائی بھائی ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔