کراچی کے اصل مسائل یہ ہیں جناب !

کراچی کے مسائل کیا ہیں ، شور کس بات پر ہے سب دعویدار ہیں کوئی مداوا کیوں نہیں کرتا، یہ وہ سوالات ہیں جو کئی برس سے کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں منفی سیاست کو جنم دے رہے ہیں۔

ڈھائی کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل میٹروپولیٹن سٹی کو سیاست سے علیحدہ کرکے دیکھیں تو یہ غریب پرور شہر روزانہ اندرون ملک سے ہزاروں کی تعداد میں آنے والوں کو اپنے دامن کو سمیٹ کر غذا سے لے کر رہائش تک کی بنیادی سہولتیں فراہم کررہا ہے اور یہ کوئی سرکاری سطح پر نہیں بلکہ ایک غیر منظم طریقہ کار کے مطابق ہورہا ہے جو شہر کے مسائل میں بھی اضافہ کررہا ہے۔

حکومتوں اور سرکاری اداروں کی بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ اس شہر میں صوبائی سطح پر اپنا ڈیٹا سسٹم تیار کرنے میں ناکام یا جان بوجھ کر تیار کرنا نہیں چاہتے۔

شہر میں سندھی ، اردو، پشتو، بلوچی ، اور دیگر زبانیں بولنے والوں کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں بنگالی، برمی اور افغان تارکین وطن بھی مقیم ہیں۔

ماضی میں نظام کچھ اس طرح بگڑا کہ غیرمقامی اور غیر قانونی مقیم افراد بھی شہر کے ڈومیسائل ، پی آر سی اور شناختی کارڈ آسانی سے حاصل کرچکے گو کہ نادرا کے ڈیٹا بیس نے مسئلے کو کسی حد تک سلجھانے کی کوشش کی لیکن معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ 

شہری اور دیہی تقسیم کے سیاسی فارمولے کے تحت وسائل کے حوالے سے 60 اور 40 فیصد کا کوٹا سسٹم طے کیا گیا لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی بدنیتی کی بنیاد پر دونوں طرف سے اس پر مکمل عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا۔ 

اب صورت حال یہ ہے کہ اس معاملے پر ابہام پیدا کردیا گیا ہے کہ کوٹہ سسٹم کی میعاد ختم ہوچکی جبکہ گزشتہ کچھ سالوں میں ہونے والی ہزاروں بھرتیوں میں بھی کوٹہ سسٹم کو نظر انداز کیا گیا ہے، خصوصاً  سرکاری نوکریوں کی فراہمی میں ناانصافی نے مزید محرومیوں کو جنم دیا ہے۔

شہر کے مسائل کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ گنجان آباد علاقے کچرے اور سیوریج کے پانی سے بھرے پڑے ہیں، ان کے اپنے منتخب بلدیاتی اور صوبائی اور وفاقی ممبران اسمبلی اپنے علاقوں میں ان حالات کو دور کرنے میں کوئی سنجیدہ قدم اٹھاتے نظر نہیں آتے۔

گندگی اور تعفن زدہ ماحول یہاں رہنے اور پرورش پانے والی نئی نسل پر کیا اثرات مرتب کررہے ہیں اس کا مشاہدہ وہاں جاکر ان کے درمیان رہنے سے پتہ چل سکتا ہے جو مستقبل میں ایک اور خوفناک منظر کی پیشگوئی ہے۔

ان علاقوں میں بڑی تعداد میں نوجوان یا تو چھوٹے کارخانوں، صنعتی ایریا کی فیکٹریز میں یا پھر نجی اداروں میں تکنیکی اور دفتری امور کی ملازمتیں کرکے اپنا روزگار حاصل کررہے ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد ان ہی علاقوں میں چھوٹے بڑے کاروبار سے اپنا گزربسر کررہی ہے۔

کراچی میں امن و امان کے لئے کئے جانے والے اقدامات اور خفیہ اداروں  کی رپورٹس پر نمائندہ جماعت کی قیادت کے اہم ارکان ریاست کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث پائے گئے اور اس الزام پر بلیک لسٹ کردئیے گئے۔ 

ایسی صورت حال میں ایک بڑی کمیونٹی کی سیاسی قیادت کے لئے بحران شدت اختیار کرگیا، نمائندہ جماعت کے ہی کچھ سینئر رہنماوں نے مختلف ناموں سے تنظمیں قائم کرکے بقایا جات کو ملکی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی لیکن پچھلے داغوں کو دھونا اتنا آسان نہیں ہے۔ 

کچھ نامور سیاسی جماعتیں شہری قیادت کے خلا کو پُر کرنے کے لئے اپنے طور پر دعوے کرتی نظر آرہی ہیں لیکن درحقیقت اس خلاء کو پُر کرنا کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ بدقسمتی سے ملکی سیاست زبانوں اور لسانیت کی بنیاد پر تقسیم نظر آتی ہے۔

دوسری جانب سے یہ باتیں شہر کے عوام حلقوں میں کی جارہی ہیں کہ شہری علاقوں کے نمائندے کیوں بے اختیار ہیں، مختلف علاقوں میں کچرے کے ڈھیر کیوں ہیں، کچرا کون اٹھائے گا، سیوریج لائنوں کی مرمت کیوں نہیں کی جارہی، پانی کی لائنوں سے پانی کہاں غائب ہوگیا، لائنوں کا پانی ٹینکروں کو کیوں فراہم کیا جارہا ہے، شہر کے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کیوں خراب ہے، سڑکوں کی تعمیر پر اضافی کروڑوں روپے لگانے کے بعد ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کیوں ہے، سرکولر ریلوے منصوبہ کیوں بحال نہیں ہو پا رہا، میٹروپولیٹن میں اب تک جناح اور سول اسپتال جیسے بڑے سرکاری اسپتال کیوں نہیں بنائے گئے۔

یہی نہیں کراچی کے مسائل میں یہ بھی شامل ہے کہ جو زمینیں، پارک، کھیلوں کے میدان اور سڑکیں قبضہ مافیا اور چائنا کٹنگ کا شکار ہوگئیں انہیں کس طرح بحال کیا جائے گا، تفریحی مراکز اور صحت مند ماحول فراہم کرنے کے لئے شہر کے نوجوانوں کو سہولتیں کون فراہم کرے گا۔

محکمہ بلدیات کے اداروں، فائر بریگیڈ، ریسکیو، لینڈ، صحت اور شعبہ تعلیم کی حالت زار کیوں خراب ہے، ان حالات میں احساس محرومی کو مزید تقویت یہ بات دیتی ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں ساٹھ اور چالیس فیصد دیہی اور شہری کوٹے کا اسٹیٹس کیا ہے شہری علاقوں کی سیاسی قیادت اس معاملے میں ناکام کیوں ہے۔

ان تمام معاملات کو کیسے اور کون حل کرے گا یہ سوال عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے اور رہے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔