بلاگ
Time 18 نومبر ، 2017

چین کی سیاسی سمت

— فوٹو:فائل

کامیاب معاشی پالیسیوں کی بدولت اس وقت چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے چین کے عالمی کردار میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

ایک پاکستانی کے طور پر ہمارے لیے چین کی جو اہمیت ہے اس سے تو ہر کوئی آگاہ ہے مگر اب تو چین کو اپنی معاشی ترقی کی بدولت جس طرح پوری دنیا میں اہمیت مل رہی ہے وہ قابل دید ہے۔

اس لیے ایسے عظیم ملک کی سیاسی سمت پر ایک نظر ڈالنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا، چین کی اسی اہمیت کے پیش نظر 18 اکتوبر کو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 19 ویں نیشنل کانگرس کے انتہائی اہم اجلاس پر پوری دنیا کے میڈیا نے بھر پور توجہ دی۔

حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کا یہ اجلاس ہر پانچ سال بعد ہوتا ہے جس میں ایسے رہنما بھی سامنے آتے ہیں کہ جو موجودہ حکمرانوں کی معیاد ختم ہونے کے بعد ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے۔

 اس اجلاس میں ہی چین کی تمام داخلی اور خارجہ پالیسیوں کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے اور اگلے 5 سال کیلئے اہداف بھی رکھے جاتے ہیں اور اس اجلاس میں کمیونسٹ پارٹی کے 2200 نمائندے شریک ہوئے۔

یہ نمائندے کمیونسٹ پارٹی کی 200 رکنی سینٹرل کمیٹی کا انتخاب کرتے ہیں اور  یہ 200 ارکان 24 رکنی پولٹ بیورو اور یہ 24 ارکان 7 رکنی اسٹینڈنگ کمیٹی کا انتخاب کرتے ہیں۔

چین کا سب سے با اختیار ادارہ یہی اسٹینڈنگ کمیٹی ہو تی ہے اور  اسی اسٹینڈنگ کمیٹی نے چین کے صدر شی جن پنگ کو نومبر 2013 میں دس سال کیلئے چین کی صدرات کے عہدے پر فائز کیا تھا۔

شی جن پنگ نے اپنے اب تک کے پانچ سالہ دورمیں نمایاں اقدامات اٹھائے، خاص طور پر کرپشن کیخلاف بہت سے اقدامات کیے ہیں  اور بو ایکسی لائے اور سنگ زنگ کائی جیسے قدآور کمیونسٹ رہنماؤں کو بھی کرپشن پر معاف نہیں کیا گیا۔ 

چین کے سرکاری میڈیا کی اطلا عات کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی کے 4885 افسروں کو کرپشن پر سزائیں دی گئی،  اپنے پانچ سالوں میں شی جن پنگ نے چینی قوم پرستی کو بھرپور اعتماد بخشا۔

19 ویں کا نگرس کے اجلاس میں بھی شی جن پنگ نے فخر کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا کہ چین جیسی عظیم قوم کو اب دنیا میں اس کا جائز مقام ملنے جا رہا ہے۔

جہاں تک چین کی معاشی ترقی کا تعلق ہے تو چین کی قیادت نے 30 برس پہلے ادراک کر لیا تھا کہ صرف ریاستی سوشلزم کے ماڈل سے ترقی نہیں ہو سکتی چنانچہ چینی رہنماؤں نے معاشی اصلا حات کے ذریعے ملک میں مرکزی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ منڈی کے نظام کیلیے بھی گنجائش پیدا کردی جس سے چین کی معیشت دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی نئی بلندیوں کو چھونے لگی۔

یوں چین کے یہ معاشی تجربہ ایک طرح سے مغرب کے سرمایہ داری نظام کے خلاف ایک متبادل کے طور پر ابھرا ہے، کیونکہ مغرب میں معاشی ترقی کو سرمایہ دارانہ جمہوریت کا ثمر قرار دیا جا تا ہے مگر چین کی معاشی ترقی نے اس مفروضے کو الٹ کر رکھ دیا ہے کیونکہ چین مغربی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو اپنائے بغیر تیزی سے معاشی ترقی کر رہا ہے۔

1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد تو مغربی جمہوریت کو ایک مقدس نظریے کے طور پر پیش کیا جانے لگا اور اب دنیا میں کسی ملک کی ترقی یا خوشحالی کو لبرل یا مغربی جمہوریت کے وجود میں ہونے یا نہ ہونے سے ہی تعبیر کیا جانے لگا۔

فوکو یاما کے تاریخ کے خاتمے کے نظریہ نے تو مغربی یا لبرل جمہوریت کو انسانیت کی معراج قرار دے ڈالا لیکن خود مشرق میں ایسے سیاسی ماڈلز ابھر رہے ہیں کہ جو نہ صرف مغربی جمہوریت سے مختلف ہیں بلکہ ان ایشیائی ماڈلز کی استعدادکار پر مبنی حکومتی نظاموں سے مغرب کو بھی بہت کچھ سیکھنا پڑے گا۔

’دی فورتھ ریولوشن‘ کتاب کے مطابق اس وقت خاص طور پر چین میں جس طرح لیڈر شپ اور سول بیورکریسی کو تربیت فراہم کی جاتی ہے، اس کی کوئی مثال اس وقت مغرب کے کسی بڑے ملک میں موجود نہیں۔ 

استعداد کار پر مبنی حکومت کے حوالے سے چین وہ سب کچھ تیزی سے حاصل کر رہا ہے کہ جس کو حاصل کرنے میں مغرب کو کئی صدیا ں لگیں ہیں۔ چین کی حیران کن ترقی کی بڑی وجوہات میں ریاستی ہدایات کے مطابق کی جانے والی سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی ترقی ہے۔

 گورننس پربھر پور توجہ دینے کے باعث ہی آج چین میں حکومت سنجیدہ اور منظم نظر آتی ہے جبکہ دوسری طرف مغربی حکومتوں میں نظم و ضبط کا پہلو آہستہ آہستہ مفقود ہوتا جا رہا ہے۔

یورپ اور امریکہ میں انتخابات جیتنے کیلئے ووٹرز سے ایسے ایسے وعدے کئے جاتے ہیں کہ جن کا پورا ہونا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہوتا جب کہ سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے بعد طویل المدتی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنے کے بجائے اگلے انتخابات جیتنے کیلئے محض سطحی نوعیت کے ہی اقداما ت کرتی ہیں۔

جب کہ چین میں لیڈر شپ کو با قاعدہ تربیت دینے کے بعد حکومت کرنے کا ایسا طویل عرصہ دیا جاتا ہے کہ جس میں سیاسی عدم استحکام کی گنجائش انتہائی کم ہوتی ہے، یوں چین کی لیڈر شپ معاشی اور سماجی ترقی کے اہداف حاصل کرنے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہے۔

تاہم یہاں پر یہ تاثر لینا بھی غلط ہو گا کہ چین کا نظام ہر طرح کی خرابی سے بالاتر ہے، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ دو یا تین عشروں میں چین نے جہاں ایک طرف بھرپور معاشی ترقی کی تو دوسری طرف وہاں پر دولت کی انتہائی عدم مساوات پر مبنی تقسیم میں بھی شدت آتی گئی۔ 

بڑھتی ہوئی کرپشن آج خود چین کی سیاسی قیادت کیلئے ایک درد سر بن چکی ہے، خود کمیونسٹ پارٹی کے کئی اعلی عہدے داروں پر کرپشن کے الزامات لگ چکے ہیں۔

جب کہ اپنے گروپ کے لوگوں کو نوازنے کے مظاہرے چین میں بھی سامنے آتے رہتے ہیں اور یہ چند مثالیں ثابت کرتیں ہیں کہ ابھی تک انسان عملی طور پر کوئی ایسا نظام نہیں بنا پایا کہ جو کامل ہو۔ 

تاہم چین کی معاشی ترقی، جس میں اس کے مخصوص سیاسی نظام کا بھی حصہ ہے، اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ مغرب کی طرف سے پیش کئے گئے سیاسی اور معاشی نظام ہی حتمی سچائی کے حامل نہیں ہیں۔

عمر جاوید جیو ٹی وی میں سینیر ریسرچر ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔