بلاگ
Time 20 نومبر ، 2017

آپ کی توجہ کدھر ہے

اگر آپ کو واقعی یہ جاننا ہے کہ ہم کیسی سوچ رکھتے ہیں، کسی سے کیسے بات کرتے ہیں اور  اپنے مؤقف کو کیسے بیان کرتے ہیں تو سوشل میڈیا پر نظر ڈالیے۔

بغیر ڈھونڈے آپ کو ایسے ایسے شاہکار بدتمیز مل جائیں گے کہ آپ اپنی قسمت اور ٹوئٹر ، فیس بک کے اکائونٹ کو رو رو کے گیلا کردیں گے ۔

ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں نوجوان تفریح کے لئے فلمیں ، ڈرامے اور مزاحیہ پروگرام کم خبریں اور ان کے بعد خبروں کے تبصروں سے بھرے ٹاک شو زیادہ دیکھتے ہیں۔

میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ تین چار مہذب سیاستدانوں کی منہ نچول فلموں اور ڈراموں سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہے، آج کا نوجوان پروگرام نشر ہونے کے دوران یا پھر فوراً بعد پروگرام میں سے اپنی مرضی کے کلپ کاٹ کر اس کو اپنے ہی جیسے چند گدھوں سے شیئر کردیتا ہے۔

ویسے تو ہمارے ہاں دانشوروں کی کوئی کمی نہیں ہے، ایک دم سے پتہ چلتا ہے کہ فلاں صاحب دانشور ہو گئے ہیں اور اب سے ٹی وی پر پروگرام کریں گے، پہلے صرف مذہبی پروگرام کرتے تھے جو کہ مقبول تھے اس لئے اب وہ سیاست کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں پر تبصرے بھی کریں گے ۔

اگر کرکٹ کا سیزن ہوگا تو وہ پاکستان ٹیم کی شرٹ پہن کر کرکٹ کے ماہر بننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، بس ٹوپی بدلنا ہوتی ہے باقی کام تو ان کو آتا ہی ہے یعنی دانشور کم چھپکلی زیادہ جب جی چاہا رنگ بدلا ، چپل پڑی تو دم گرای، یہ جا وہ جا  اور  اگلے چینل کی باری ۔

میں نے پاکستانی میڈیا کو کافی قریب سے دیکھا ہے، نیوز روم میں بھی کام کیا ہے اور ڈرامہ انڈسٹری میں بھی، ہمارے ہاں ملٹی ٹیلنٹڈ لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کوئی اداکار بیٹھا ہو آپ اس کے نام کے ساتھ بلا خوف و خطر ہوسٹ، ایکٹر، سنگر، ماڈل، پروڈیوسر، ڈائریکٹر وغیرہ لکھ سکتے ہیں جو ایک بار اس میڈیا برادری کا حصہ بن جاتا ہے وہ سب کام کرتا ہے اور اسے یہ سارے کام خود بہ خود آ بھی جاتے ہیں۔

ایسے کئی عظیم ایکٹر ہیں جنہوں نے ایکٹنگ میں جوہر دکھانے کے بعد لکھنے کی کوشش کی اور اتنا برا لکھا کہ کئی سچی مچی کے لکھاریوں کے دل بند ہوگئے، کہتے ہیں جس کا کام اسی کو سانجھے ہمارے ہاں ایسی کوئی بات رائج نہیں ہے۔

ہمارے مسائل دوسرے ممالک کے مسائل سے قدرے مختلف ہیں اور ہمارے مسائل ہیں ملالہ کی جینز، مائرہ کے ہاتھ میں سگریٹ، اداکارہ نور کا پردہ، عمران خان کے وہ میسج جو انہوں نے گلالئی کو بھیجے تھے وغیرہ وغیرہ۔

وہ لڑکی جسے چار وڈیروں نے اجتماعی زیادتی کا شکار بنا ڈالا ہمارا مسئلہ نہیں ہے، مشال خان کا وہ بدنصیب باپ جسے آج تک انصاف نہیں ملا  اس کی کہانی ہمارے دلوں پر اثر نہیں کرتی۔

ان سب کہانیوں پر ہماری عجیب و غریب اور غیر ضروری غیرت کو کوئی خاص ٹھیس نہیں پہنچتی اور یہ کہانیاں سوشل میڈیا سے بہت جلدی غائب ہوجاتی ہیں۔

جون ایلیا کا یہ شعر مجھے بہت پسند ہے جو انہوں نے اس لئے کہا تھا کیوں کہ ان کے پاس کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں تھا ۔

ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک

بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی

آج جون زندہ ہوتے تو میں ان کو بتاتا کہ بات کرنے کے مواقع جتنے آج فراہم ہیں اتنے کبھی فراہم نہیں تھے، بات سننے والے اتنے ہیں اور ایسے ہیں کہ میں حیران ہوں کہ یہ سب بھی میرے جیسے پاکستانی ہیں۔

باتیں بہت ہیں مگر باتوں کا معیار اتنا پست ہوچکا ہے کہ کئی بار ٹوئٹر کی وال پر سر ٹکرانے کا دل چاہتا ہے اور وہ جہالت کے سارے بیج جو ہم سے پہلے بوئے گئے تھے اب تناور درخت بن چکے ہیں، ان کی جڑیں مضبوط ہوچکی ہیں اور اب یہ درخت پھل دینے لگے ہیں۔

یہ بد مزہ پھل، ٹوئٹر اور فیس بک پر کمنٹز کی شکل میں میری اور آپ کی جھولی میں گرتے رہتے ہیں۔

ہمارا اور آپ کا میڈیا ایک بے نتھے بیل کی طرح سڑک پر دوڑتا رہتا ہے  اور راستے میں جو آتا ہے اسے روند دیتا ہے۔ پاکستان میں لوگوں کی نیند کا انحصار اس بات پر ہے کہ سونے سے پہلے وہ کون سا نیوز چینل دیکھ رہے تھے۔

حکومتی چینل دیکھو تو لگتا ہے پاکستان اتنی ترقی کر رہا ہے کہ نیوز کاسٹر اگلا بلیٹن مریخ سے کرے گا اور کچھ نجی چینل لگاؤ تو ایسا لگتا ہے یہ بس حکومت کا آخری دن ہے۔

ابھی کوئی اقتدار پر قابض ہو گا اور ہم ایک بار پھر ہم بیس سال پیچھے چلے جائیں گے۔

سوشل میڈیا سے اور میڈیا سے ڈر لگتا ہے اور لوگ کہتے ہیں آپ جلدی ڈر جاتے ہیں، ڈرنے کی بات ہے ، میرا ملک ہے پاکستان ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔