بلاگ
Time 23 نومبر ، 2017

وحید مراد اور ماجد خان میں انوکھی مماثلت

35سال پہلے، آج ہی کے دن، پاکستان فلم انڈسٹری کے سب سے شہرہ آفاق ہیرو وحید مراد اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ 20 سالہ فلمی سفر میں وحید مراد نے 120 فلموں میں اداکاری، ہدایت کاری، فلم سازی اور اسکرپٹ رایئٹنگ کے جوہر دکھائے۔

پہلی دفعہ جب انہوں نے فلم سیٹ پر قدم رکھا، اسی دن سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس دور کے نوجوان وحید مراد کے دیوانے تھے۔ یونیورسٹی اور کالجوں میں لڑکے لڑکیاں اپنے ہیرو کی تصویر نوٹ بک میں سجائے پھرتے تھے۔ یوں کہہ لیجیے کہ ایک پوری نسل وحید مراد کے سحر میں گرفتار ہو چکی تھی۔

سیٹ پر بھی ان کا انداز جداگانہ تھا۔ سین جذباتی نوعیت کا ہو، یا رومانوی، وحید مراد اپنا کام باآسانی کر لیتے۔ اپنی ہیروئن سے ان کی ایسی کیمسٹری بنتی تھی کہ اکثر ان کے گھروں میں اس پر ناچاقی ہو جاتی۔

1938میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے وحید مراد کی لالی وڈ میں انٹری ایکٹر کے طور پر نہیں بلکہ فلم ساز کے طور پر ہوئی۔ 1961 میں، 23 سال کے وحید مراد 'انسان بدلتا ہے' کے پروڈیوسر کے طور پر سامنے آئے۔ پھر 1964 میں 'ہیرا اور پتھر' میں پہلی بار ہیرو کا رول ادا کیا۔

یہ جنرل ایوب خان کا دور تھا۔ جس سال وحید مراد ہیرو کے طور پر سامنے آئے، اسی سال پاکستان ٹیلی ویژن نے جنم لیا، جس کے چند ہفتوں بعد جنرل ایوب اور فاطمہ جناح کا صدارتی انتخابات میں ٹاکرا ہونا تھا۔ اسی سال انور مقصود ٹی وی پر مقبول ہوئے جبکہ کھیل کے میدان میں پاکستان ہاکی ٹیم نے ٹوکیو اولیمپکس میں چاندی کا سکہ جیتا، آفتاب جاوید نے برٹش اوپن اسکواش کا کپ اپنے نام کیا، اور کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف چھ نئے کھلاڑی پہلی دفعہ میدان میں اتارے۔

کرکٹ کے ہی میدان میں ایک اور اہم پیشرفت ہو رہی تھی۔ مستقبل کے نامور کھلاڑی ماجد جہانگیر خان نے بھی اپنے کیرئیر کا آغاز 1961 میں کیا۔ وحید مراد کے طرح ان کا برج میزان تھا، انگریزی ادب سے دونوں کو ہی شغف تھا، اور قلمیں بھی لمبی رکھنے کا شوق تھا۔ ایک اور چیز دونوں میں مشترک تھی کہ دونوں کا ستارہ تیزی سے عروج پر پہنچا تھا۔

1967 میں وحید مراد کی تیسری فلم 'احسان' سنیما ہال کی زینت بنی ہوئی تھی۔ اس وقت تک ایک کے بعد ایک ہٹ فلم دینے کی وجہ سے وحید مراد بڑی اسکرین کے سب سے بڑے ناموں میں سے ایک بن چکے تھے۔ 1966 میں ان ہی کی فلم 'ارمان' پاکستان کی پہلی پلاٹینئم جوبلی ہٹ فلم قرار پائی۔

دوسری طرف ان کے روحانی جڑواں، ماجد خان نے برطانیہ میں گلمورگن کے لئے ایسا شاندار کھیلا کہ 20 سال بعد کاونٹی چیمپین شپ کا کپ گلمورگن کے نام ہو گیا۔ فائنل سے پہلے ماجد یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ کرکٹ کی دنیا کو خیرباد کہہ کے، کیمبرج میں تعلیم حاصل کریں گے۔ لیکن مداحوں کی زبان پر اہنا نام گونجتا سن کر ماجد نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پڑھائی ختم کرکے دوبارہ اسٹیڈیم کی راہ اختیار کریں گے۔

1970 کی دہائی کے شروع میں دونوں ہی اپنے اپنے شعبوں میں عروج پر پہنچ چکے تھے۔ وحید مراد کی موجودگی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ ماجد خان وزڈن کرکٹرز آف دی ائیر سلیکٹ ہوئے۔ 1973 میں پاکستان کی طرف سے ون ڈے کی پہلے سنچری بنائی اور اپنی فیلڈنگ، تیز بولنگ اور خوبصورت شاٹس کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔

اور جیسے دونوں کا عروج ایک ساتھ شروع ہوا، اسی طرح زوال بھی تقریباَ اکٹھے ہی آیا۔

1979 میں ویڈیو کیسٹ کے آنے کے بعد فلم انڈسٹری کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگ گھر بیٹھے دس روپے میں فلم کرائے پر حاصل کر لیتے، اور یوں ان کی سنیما جانے کےجھنجٹ سے جان چھوٹ گئی۔ 1978 میں ریلیز ہونے والی 'آواز' کے بعد وحید مراد کی کوئی فلم ہٹ نہ ہو سکی۔

جہاں تک ماجد خان کا تعلق تھا، ان کو اینڈی رابرٹس کی گیند چہرے پر لگی، جس سے ان کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اور پھر وہ اپنا کھویا مقام واپس نہ حاصل کر سکے۔ 4000 رنز بنانے کا ان کا خواب ادھورے کا ادھورا ہی رہ گیا۔ جب ماجد خان کے کزن عمران خان ٹیم کے کپتان بنے، تو ان کو بالکل ہی کنارے لگا دیا گیا حالانکہ 4000 رنز کا ہدف صرف 69 رنز دور تھا۔

1983 میں وحید مراد لاہور میں وفات پا گئے۔

شاید وحید مراد اور ماجد خان کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ شاید ان دونوں کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ان کی کہانیوں میں کتنی یکسانیت ہے۔ دونوں کے بیٹوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی لیکن دونوں ہی ناکام رہے۔ بطور کھلاڑی ناکامی کے بعد بازید خان کمنٹیٹر بن گئے۔ اسی طرح عادل مراد نے اداکاری میں قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن بعد میں پروڈکشن کا پیشہ اپنا لیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔