فیض آباد دھرنا کیس: معاہدے کی شرائط پر تحفظات ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوارن فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے ہونے والے معاہدے کی شرائط اور طریقہ کار پر تحفظات ظاہر کردیے۔

فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے چار صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ بھی جاری کیا جس میں دھرنا مظاہرین اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کو بھی شامل کیا۔

چار صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ حکومت افواج کے بطور ثالث کردار ادا کرنے پر عدالت کو مطمئن کرے۔

حکم نامے میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو ہدایت کی گئی کہ مظاہرین کے پاس آنسو گیس شیل، ماسک اور آنسو گیس گن سمیت دیگر ہتھیار کیسے آئے؟ اس حوالے سے رپورٹ پیش کی جائے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد میں جاری دھرنے کے حوالے سے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپریشن ردالفساد کدھر گیا، یہاں کسی کو فساد نظر نہیں آیا؟ قانون شکنی کرنے والوں اور انتظامیہ کے درمیان فوج کیسے ثالث بن سکتی ہے؟ آپ دنیا کو بتارہے ہیں کہ جوہری طاقت والے ملک کی سیکیورٹی کا یہ حال ہے؟ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات ختم کرکے معافی کیسے دی جائیگی؟

عدالت نے سماعت کے بعد چار صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں معاہدے کی شرائط اور طریقہ کار پ اعتراضات اٹھائے اور شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں فوج کی اعلی قیادت نے جو کردار ادا کیا وہ آئین و قانون کےمطابق نہیں،مسلح افواج ملکی قوانین کے مطابق اپنے مینڈیٹ سے باہر نہیں جاسکتی، دھرنے میں اعلی عدلیہ کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کی گئی، وفاقی حکومت اور ثالث نے گھٹیا زبان پر دھرنے کی قیادت سےمعافی مانگنے کا نہیں کہا۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت افواج کے آئینی کردار اور بطور ثالث کردار ادا کرنے پر عدالت کو مطمئن کرے اور اٹارنی جنرل اس نکتے پر عدالت کی معاونت کریں۔

حکم نامے میں آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل سے رپورٹ طلب کی گئی اور کہا گیا کہ وہ بتائیں کہ دھرنا مظاہرین کے پاس آنسو گیس شیل،ماسک اور ہتھیاروں سمیت آنسو گیس گن کیسے آئیں جبکہ دھرنا کے خلاف آپریشن کی ناکامی اور مظاہرین کو مدد فراہم کرنے کی رپورٹ بھی پیش کی جائے ۔

اس سے قبل سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وزیر داخلہ احسن اقبال کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے کوئی کام نہیں کیا، دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کیا، قوم کے ساتھ یہ تماشا کب تک چلتا رہے گا؟

جسٹس شوکت نے وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات ختم کرکے معافی کیسے دی جائے گی؟ آپ نے بے رحمی کے ساتھ اسلام آباد انتظامیہ کو ذلیل کروایا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ قومی قیادت کے اتفاق سے معاہدہ کیا گیا، معاہدے میں کوئی ثالث نہیں بلکہ وہ گواہ کے طور پر شامل ہوئے۔

سماعت کے دوران حساس ادارے کے نمائندے نےعدالت کو بتایا کہ دھرنوں کے پیچھے حساس ادارے کا کوئی کردارنہیں، صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے دو ہی راستے تھے، معاملہ پر امن طریقے سے حل کیا جاتا یا پرتشدد طریقے سے، جب عدالت کا حکم ملا تو پھر پر امن راستے کا انتخاب کیا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ آپ کو گولی چلانے کا حکم نہیں دیا تھا، پہلے وارننگ دینی تھی، بات نہ ماننے پر فورس استعمال کرنی تھی، 65 ء کی جنگ میں ہم نے جھولی پھیلا کر افواج کے لیے چندے جمع کیے، بیرونی جارحیت ہوئی تو فوج کے لیے خون بھی حاضر ہے، فوج ہمارا فخر ہے، فوج میں ہمارے باپ بیٹے اور بھائی شامل ہیں،فوج کو اپنا کردار آئینی حدود میں ادا کرنا چاہیے،ثالثی کا کردار قابل قبول نہیں۔

جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے احسن اقبال سے استفسار کیا کہ راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ کہاں ہے؟ہم بیرسٹر ظفراللہ کی ڈیوٹی لگاکر رپورٹ منگوا لیں گے۔ اس کے بعد کیس کی مزید سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔

مزید خبریں :