تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

ایک عظیم مفکر اور مدبر ہمارے درمیان آیا اور قران کا پیغام اپنی قوم کو اپنی شاعری میں سمجھا کر چلا گیا، جن لوگوں کو شاعر مشرق کے پیغام کا ابلاغ ہو گیا، ان کے ہاتھوں پاکستان بن گیا لیکن جن لوگوں نے اس کو سمجھنا نہ چاہا اور نام نہاد ترقی پسندانہ بحثوں میں الجھ گئے انہوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنوا دیا۔

ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ہر سال اپنے جس حصے کے ٹوٹنے کا غم مناتی ہے، اسی دوسرے حصے کے عوام اسلامی جمہوریہ پاکستان سے علیحدگی کو یوم آزادی کے طور پر مناتے ہیں لیکن ہم نے کبھی ان وجوہات کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ ملک کی 56 فیصد آبادی نے اس وطن سے علیحدگی  کا اعلان کر دیا جس کو کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں ہم نے مل کے حاصل کیا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے جبکہ قرآن ہمیں تاریخی واقعات سے سبق لینے کی تلقین کرتا ہے:

’’اور کیا اِن لوگوں کو (اِن تاریخی واقعات میں) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ اس میں بڑی نشانیاں ہیں، کیا یہ سنتے نہیں ہیں؟‘‘

ہم بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہو سکتا، یہ قیامت تک قائم رہے گا لیکن ہم اللہ کریم کے بنائے گئے اصولوں کو بھول جاتے ہیں، ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آدھا پاکستان ہم 16 دسمبر 1971 ء کو گنوا چکے ہیں اور اس پاکستان کو بھی ہم پاکستان اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ 56 فیصد آبادی والے مشرقی پاکستان والوں نے اپنے لیے بنگلا دیش کا نام پسند کیا وگرنہ ہم تو اپنے نام سے بھی محروم ہو چکے ہوتے۔

میں صحافت کے ساتھ ساتھ تاریخ کا طالب علم بھی ہوں، تاریخ میرا عشق ہے، بغداد میں جب ملت اسلامیہ کے خلیفہ کو ہلاکو خان ہاتھیوں تلے رندوا کر قیمہ بنوا رہا تھا وہ بھی ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ تھا، اس وقت بھی ہمارا اتحاد پارہ پارہ ہو چکا تھا، ہم مذہبی اور سیاسی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے، یہی حال 1492ء میں غرناطہ میں ہوا کہ 8سو برس حکومت کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کو جبراً بے دخل کر دیا گیا یا عیسائی بنا دیا گیا۔

سن 1737ء میں جب ایرانی لٹیرا نادر شاہ دہلی کو 7دن لوٹتا رہا اور مغل عظمت کا جنازہ نکال دیا، اس کے بعد ہندو، انگریز اور دیگر قومیں ہمیں برباد کرنے میدان میں اتر آئیں، اپنے پاؤں پر کلہاڑی ہم نے خود ہی ماری، سید برادران کون تھے؟ کیا وہ مسلمان نہیں تھے؟ بوسینیا، چیچنیا اور برما کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں، آخر ہم تاریخ سے سبق کب سیکھیں گے؟ہم اپنی آنکھیں کب کھولیں گے؟

آج بچے کچھے پاکستان کا وہی حال ہے، مذہبی، لسانی، گروہی، علاقائی، سیاسی تقسیم ہم میں اتنی ہے کہ ہم کسی طور پر ایک قوم کی تعریف پر پورا نہیں اتر سکتے، امریکا،بھارت، افغانستان اور اسرائیل ہمارا سینڈ وچ بنانے کی تیاریاں مکمل کر چکے ہیں لیکن ہم دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ ایٹمی پاکستان کا دارالحکومت بھی چند ہزار لوگوں سے محفوظ نہیں، چند لوگ کبھی 2014ء میں اور کبھی 2017ء میں پورا ملک جام کر سکتے ہیں۔

ہمارے ادارے ایک نہیں ہیں، ہماری پارلیمنٹ کا مذاق اڑایا جاتا ہے جو کسی بھی ریاست کا سب سے مقتدر ادارہ ہوتا ہے جس کے بنائے گئے قوانین کی عدلیہ اور ایگزیکٹو نے پاسداری کرنا ہوتی ہے، آہ ہم ابھی تک جمہوریت کو ہی نہیں سمجھ سکے لیکن ہم مہذب ہونے کے دعوے دار ہیں۔

ہمارے ایسے دانشور موجود ہیں جنہوں نے کبھی تاریخ کی کوئی کتاب آج تک نہیں کھولی، ان کو یہ تک نہیں معلوم کہ ہماری تاریخ کے اصل ماخذات تک رسائی کے لیے فارسی جاننا ضروری ہے کیونکہ انگریزی اور اردو میں جو تاریخ لکھوائی گئی وہ سامراجی آقاؤں کی ضرورت تھی، لارڈ میکالے کے بنائے گئے کالے انگریز آزادی کے ستر برس بعد بھی ہم پر  مسلط ہیں، اسی لیے ہم ستر برس بعد بھی آزاد نہیں ہیں، ہم سامراجی نظام کے غلام ہیں اور شاید ہمیشہ رہیں گے کیونکہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا چاہتے۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔