لاہورہائیکورٹ کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ عام کرنے کا حکم


لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے رپورٹ عام کرنے کا حکم دے دیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل 3 رکنی فل بینچ نے صوبائی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت مکمل کرکے 24 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت نے آج فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب حکومت کی اپیل مسترد کردی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ 30 دنوں میں عام کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ تحقیقاتی رپورٹ کی نقول سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو بھی دی جائے جب کہ صوبائی حکومت فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتی ہے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ رپورٹ عام ہونے کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ٹرائل پر کوئی اثر انداز نہیں ہوگا، ٹرائل غیر جانبدارانہ اور شفاف انداز میں چلایا جائے گا۔

عدالتی حکم کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے باہر موجود پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان نے خوشی کا اظہار کیا اور مال روڈ پر سجدہ ریز ہوگئے، کارکنان نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے حق میں بھی نعرے بازی کی۔

فی الفور رپورٹ شائع کرنے کا حکم دیا گیا، وکیل عوامی تحریک

پاکستان عوامی تحریک کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالتی فیصلے پر کہا ثابت ہوگیا کہ آئین و قانون زندہ ہے، عدالت نے وکیل صفائی کی اپیلوں کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے فی الفور رپورٹ شائع کرنے کا کہا ہے، آج کے عدالتی فیصلے میں پاکستانی قوم کے حق کو مانا گیا ہے۔

حکومت کا سپریم کورٹ جانے کا اعلان

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کردیا ہے۔

جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما زعیم قادری نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں رپورٹ سے کوئی خطرہ نہیں، جے آئی ٹی کی رپورٹ موجود ہے لیکن یہ رپورٹ مکمل نہیں ہے، اگر ہوتی تو اسے منظر عام پر لے آتے تاہم اس حوالے سے سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی ہم مان لیں گے۔

زعیم قادری کا کہنا تھا کہ جو لوگ اس مقدمے میں نامزد تھے ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاچکی ہے، یہ کیس دہشت گردی کی عدالت میں چل رہا ہے، کیس میں جو پولیس اہلکار گرفتار کیے گئے ان کی عدالتوں سے ضمانتیں ہوئیں، یہ کیس اپنے آخری مراحل میں ہے۔

انہوں نے پی ٹی آئی کے حوالے سے کہا کہ خواہش کو خبر بنانا پی ٹی آئی کا وطیرہ ہے، وہ دعا کررہے ہیں کہ کسی طرح (ن) لیگ اور نوازشریف میدان سے ہٹ جائیں اور جو لوگ نوازشریف کو وزیراعطم بناتے ہیں وہ دنیا سے غائب ہوجائیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہے، سیاست میں خدمت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اپوزیشن کا رد عمل

عدالتی فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے کہا کہ آج حق اور سچ کی فتح ہوئی ہے، نوازشریف تو چلے گئے اب رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد شہبازشریف کی سیاست کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔

میاں محمود الرشید نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور وزیر قانون رانا ثنااللہ فوری مستعفی ہوجائیں۔

پاکستان عوامی تحریک کےرہنما خرم نواز گنڈا پور نے عدالت کےباہر میڈیا سےگفتگو میں کہا کہ جب عدالت نے حکم دیدیا ہے کہ فوری کاپی دیں تو اس کا مطلب 15 دن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب ہمارا حق ہے کہ ہم جائیں اور ہمیں رپورٹ کی کاپی دی جائے۔

عدالتی فیصلے پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ یہ بہت بڑا فیصلہ ہے اور ان  30 دن میں حدیبیہ کا بھی فیصلہ ہو جائے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ سانحہ کے بعد ان لوگوں نے جن پولیس افسران کو دوسری جگہ تعینات کردیا تھا اب انہیں بلایا جارہا ہے۔

شیخ رشید نے مزید کہا کہ یہ پھانسیوں اور سزاؤں کا معاملہ ہے،  اس کیس میں پولیس والے شہادت دیں گے، (ن) لیگ نے بھٹو کی طرح کیس کو کیس نہیں سمجھا۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ حالات کافی کشیدہ ہیں، مارچ سے پہلے پہلے کچھ ہوگا،پاکستان کی سیاست انتشار اور خلفشار میں الجھ گئی ہے، اس کا فیصلہ ضروری ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن 17 جون 2014 کو پیش آیا

یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا، اس موقع پر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق اور 90 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کی جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن نے تحقیقات کی تھی لیکن اس انکوائری رپورٹ کو عام نہیں کیا گیا تھا۔

بعدازاں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین نے جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا، جس پر سماعت کے بعد جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے رواں برس 21 ستمبر کو مذکورہ انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے پنجاب حکومت کو حکم دیا تھا کہ انکوائری رپورٹ منظر عام پر لائی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔

مزید خبریں :