دنیا
Time 07 دسمبر ، 2017

امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کے فیصلے پر عالمی برادری کا شدید ردعمل

مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان پر امریکی صدر کو اسرائیل کے سوا کہیں سے حمایت نہیں ملی، اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور اہم مغربی اتحادیوں سب نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ 

مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام، تشدد میں بڑھاوے اور امن عمل کو لاحق خدشات پر فرانس، برطانیہ، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ سمیت 8 ممالک کی درخواست پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس جمعے کو طلب کیا گیا ہے۔

فرانس کی درخواست پر بلائے جانے والے اجلاس کی حمایت برطانیہ، سوئیڈن، اٹلی، مصر، سینیگال، بولیویا اور یوراگوئے نے کی۔

پاکستان نے مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت تبدیل کرنے کے امریکی اقدام کی دوٹوک الفاظ میں مخالفت کی ہے، پاکستان نے کہا ہے کہ امریکی اقدام مشرق وسطیٰ کے امن عمل کی تباہی کا باعث ہوگا۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صورتحال کا نوٹس لے جب کہ معاملے پر ترکی کی جانب سے اسلامک سمٹ بلانے کا خیر مقدم بھی کیا گیا ہے۔ 

یورپی ممالک کا اظہار تشویش

یورپی یونین کی جانب سے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا کہ  مقبوضہ بیت المقدس کے مستقبل کا فیصلہ بات چیت کے ذریعے نکالنا چاہیے، اسرائیل اور فلسطین دونوں کی خواہشات پوری ہونی چاہئیں۔

برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ یہ اقدام امن عمل میں مددگار نہیں ہوگا۔

فرانسیسی صدر ایموئینل میکرون نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ امریکی صدر کے فیصلے کی بالکل حمایت نہیں کرتے۔

جرمن چانسلر نے بھی امریکی اعلان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یرو شلم کی حیثیت کا فیصلہ دو ریاستی حل کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔

کینیڈا کا کہنا تھا کہ یروشلم کی حیثیت کا فیصلہ اسرائیل فلسطین تنازع کے حل سے کیا جاسکتا ہے۔

کینیڈین وزیراعظم جسٹس ٹروڈو کا کہنا ہے کہ اہم اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل نہیں کر رہے، ہمارا سفارت خانہ تل ابیب میں ہی رہے گا۔

اقوام متحدہ کےسیکریٹری جنرل نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یکطرفہ فیصلے کی مخالفت کردی اور کہا کہ اس اعلان سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن خطرے میں پڑنے کا خدشہ ہے، دو ریاستی حل کے سوا امن کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔

پوپ فرانسس نے امریکی صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام کیا جائے اور مقبوضہ بیت المقدس کی موجودہ حیثیت کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ تنازعات نے دنیا کو پہلے ہی خوفزدہ کر رکھا ہے اس لئے کشیدگی کا نیا عنصر شامل نہ کیا جائے۔

مسلم ممالک میں غم و غصہ

دوسری جانب مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے جو 13 دسمبر کو ہونے کا امکان ہے۔ 

سعودی عرب کی جانب سے امریکی صدر کے اعلان پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے، سعودی شاہی ایوان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینا بلا جواز اور غیر ذمہ دارانہ قدم ہے۔

سعودی شاہی اعلان میں کہا گیا ہے کہ امریکی فیصلے سے فلسطینیوں کے ساتھ تعصب ظاہر ہوتا ہے، امید ہے کہ عالمی برادری کی خواہش دیکھتے ہوئے امریکی انتظامیہ اپنا فیصلہ واپس لے گی۔

ادھر امریکی صدر کا اعلان سنتے ہی مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی احتجاج کرتے سڑکوں پر نکل آئے ، فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ امریکی فیصلہ 2 ریاستی حل کی پرامن کوششوں پر پانی پھیر دےگا جب کہ فیصلے سے امریکا خطے میں امن عمل کی ثالثی سے دستبردار ہوگیا۔

حماس نے ٹرمپ کے اعلان کو جارحانہ قرار دیتے ہوئے اس کی بھرپور مزاحمت کا عزم ظاہر کیا ہے۔

لبنانی صدر مشیل اون نے کہا کہ امریکی فیصلہ امن عمل کو کئی دہائیوں پیچھے لے جائے گا اور نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کو بھی اس فیصلے سے خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔

حزب اللہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ٹرمپ کے اعلان سے ثابت ہو گیا کہ امریکا کے لئے صرف اسرائیل اہم ہے۔

ایران نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کا غیر دانشمندانہ اور اشتعال انگیز اقدام اسرائیلی کے خلاف نئی مزاحمتی جدوجہد کی بنیاد بنے گا جب کہ قطری وزیر خارجہ نے ٹرمپ کے اقدام کو امن پسندوں کے لیے موت سے تعبیر کیا۔

ترک دارالحکومت انقرہ اور استنبول میں بھی امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، ترکی نے ٹرمپ کے اعلان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ 

امریکی اعلان پر مشترکہ لائحہ عمل کے لیے ترکی میں اسلامی تنظیم کانفرنس کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے جب کہ پڑوسی ممالک اردن اور مصر کا کہنا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

شامی صدر بشارالاسد کا کہنا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کے مستقبل کا فیصلہ کوئی ریاست یا صدر نہیں کرسکتا، ایسی فلسطینی ریاست کے قیام تک جس کا دارالحکومت مقبوضہ بیت القدس ہو عرب اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

 اردنی دارالحکومت امان اور پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینی احتجاج کرتے سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ختم کیا جائے۔

 مراکش نے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے اعلان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی ایلچی کو طلب کرلیا ہے۔

بیت المقدس کے معاملے پر اسرائیل فلسطین تنازع کی تاریخ

مقبوضہ بیت المقدس جسے یروشلم بھی کہا جاتا ہے دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ 1948 میں جب برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست قائم کی تو یروشلم اس کا حصہ نہیں تھا۔ 

اقوام متحدہ نے علاقے کو فلسطین اور اسرائیل میں تقسیم کرنے کے لیے جو نقشہ بنایا اس میں بھی یروشلم کو بین الاقوامی کنٹرول میں دینے کی سفارش کی تھی۔

مگر فلسطینیوں نے یہ پلان تسلیم نہیں کیا اور اپنے پورے علاقے کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ 1948 کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی یروشلم پر قبضہ کر لیا جب کہ مشرقی یروشلم اردن کے کنٹرول میں رہا۔

1967کی جنگ میں اسرائیل نے عربوں کی متحدہ فوج کو شکست دے کر اردن سے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم کا علاقہ بھی چھین لیا۔

اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو اپنا علاقہ قرار دیا تو 1967ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی مخالفت کی۔

1993 کے اوسلو معاہدے کے تحت فلسطین اور اسرائیل نے ایک دوسرے کا وجود تسلیم کیا،غزہ اور مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم کی گئی۔

اس معاہدے میں یروشلم کا معاملہ بعد میں طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن نیتن یاہو کی سخت گیر حکومت قائم ہونے کے بعد سے رہے سہے مذاکرات بھی ختم ہو گئے اور اب اسرائیل مشرقی یروشلم کے علاقوں میں بھی یہودی بستیاں قائم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

'یروشلم ایمبیسی ایکٹ 1995'

امریکی کانگریس نے 'یروشلم ایمبیسی ایکٹ 1995' آٹھ نومبر 1995 کو منظور کیا  جس کے تحت امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل ہونا تھا۔

1995 سے اب تک امریکی صدور ہر 6 ماہ بعد اس فیصلے کو مؤخر کرتے آئے تھے اور اس فیصلے کو پہلی بار سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے مؤخر کیا تھا۔

اس قانون کی ایک شق میں امریکی صدر کو حق دیا گیا کہ وہ سیکیورٹی وجوہات پر اس فیصلے کو 6 ماہ کے لیے مؤخر کر سکتے ہیں تاہم اس فیصلے پر ہر 6 ماہ بعد نظرثانی کرنا ضروری ہے۔

اور اسی شق کو استعمال کرتے ہوئے بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش، براک اوباما سے لے کر چھ ماہ قبل تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ فیصلے پر عمل در آمد روکتے  آئے ہیں۔

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی یکم جون 2017 کو قانون پر دستخط کرکے امریکی سفارت خانے کی منتقلی کا فیصلہ مؤخر کیا تھا۔

مزید خبریں :