ایچ ای سی کی ناکام پالیسی

 2010ء سے 2014ء کے دوران پاکستان کی سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے محض 1351 پی ایچ ڈیز پیدا کیے—۔فائل فوٹو

ایک زمانہ تھا جب سالانہ امتحانات ہوا کرتے تھے اور بچے اپنے رزلٹ والے دن اچھی طرح سے تیار ہو کر اپنا رزلٹ لینے اسکول جایا کرتے تھے۔ اس دن بچوں کے چہروں پر خوشی دیدنی ہوتی تھی، ساتھ ہی والدین بھی اس بات پر بہت خوش ہوتے تھے کہ ان کا بچہ بھی اگلی کلاس میں ترقی پا گیا ہے، لیکن والدین کے لیے اس دن جو بات سب سے زیادہ توجہ طلب ہوتی تھی وہ یہ تھی کہ ان کے بچے کی کلاس میں اول، دوئم اور سوئم پوزیشن پر کون سا طالب علم ہے؟

 مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی ہمارا تعلیمی نظام بھی ترقی کے مراحل سے گزرا اور آج پاکستان میں دوہرا تعلیمی معیار سب کے سامنے ہے اور اس دوہرے تعلیمی معیار میں کہیں سالانہ امتحانات کا شور ہے تو کہیں سمسٹر سسٹم کا۔

پہلے پہل بچے پورا سال محنت کرتے تھے، پوری پوری کتابیں پڑھتے اور اس کے بعد کہیں اس بات کا گمان ہوتا تھا کہ شاید ہم بھی کوئی پوزیشن حاصل کرلیں گے، مگر اس جدید دور میں تعلیم کے شعبے میں بھی شارٹ کٹ کے ذریعے راستہ بنانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور اب طالب علم محض چند مہینوں کی محنت کے بعد اپنے سمسٹر میں بہتر نمبر اور بہترین سی جی پی اے (Cumulative Grade Point Average) کے حصول میں نظر آتے ہیں۔

اس لڑائی میں ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ایک ایک نمبر حاصل کرکے سمسٹر اور ڈگری کے اختتام پر اپنا سی جی پی  اے سب سے بہتر کرلیا جائے تاکہ اگلے لیول میں داخلہ مل سکے اور اس سارے چکر میں اس بات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے کہ ڈگری کی تکمیل کے بعد طالب علم کو چاہے کچھ آتا ہو یا نہیں، بس ڈگری ہونی چاہیے۔

سی جی پی  اے کی اس دوڑ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) بالکل ناکام ہوگیا ہے، کہیں سی جی پی اے 4 ہے تو کہیں 5 اور ایسے میں ہر طالب علم کی یہی کوشش ہےکہ سفارش، چاپلوسی یا کسی اور ذریعے سے اپنا سی جی پی اے بہتر کرلیا جائے۔

گزشتہ پانچ سالوں کے ایچ ای سی کے اعداد و شمار پر اگر غور کیا جائے تو واضح طور پر نظر آئے گا کہ 2010ء سے 2014ء تک سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے محض 1351 پی ایچ ڈیز پیدا کیے، جب کہ اس کے برعکس ہمارا پڑوسی ملک، جسے ہم نے کسی زمانے میں 'موسٹ فیورٹ نیشن' کا درجہ دیا، وہاں ایک سال میں لگ بھگ 22 ہزار پی ایچ ڈیز پیدا ہو رہے ہیں۔

ہم ہر سال اپنے بجٹ میں ایک خطیر سرمایہ اپنی تعلیم اور خاص طور پر ہائر ایجوکیشن کے لیے مختص کرتے ہیں مگر اس کے باوجود تعلیم کی حالت بہت خستہ ہے اور وہ بجٹ جو ہائر ایجوکیشن کے لیے رکھا جاتا ہے، صرف کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے اور طالب علموں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے افسران کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔

ایک مرتبہ میری ایچ ای سی کے ایک نمائندے سے بات ہوئی، میں نے ان سے پوچھا کہ ایچ ای سی کی ساری توجہ سمسٹر سسٹمز اور سی جی پی  اے پر کیوں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تعلیم کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ملک میں نظام تعلیم کو سدھار لیا جو ہم بین الاقوامی معیار کو فالو کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں، بہتر یہی ہے کہ ہم پہلے اس ملک کے نظامِ تعلیم کو بہتر کریں، تب ہی بین الاقوامی معیار کی بات بھی اچھی لگے گی۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی طالب علم اپنی محنت سے مطلوبہ سی جی پی  اے حاصل نہ کرسکے تو کیا اس کو مزید تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں؟

جس ملک میں وزیراعظم کی نااہلی کے بعد پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے، آئین میں ترمیم کرسکتی ہے، اس ملک میں کسی طالب علم کے لیے سیکنڈ ڈویژن یا کم سی جی پی اے حاصل کرنے کی سزا یہ ہے کہ وہ مزید تعلیم حاصل نہ کرے بلکہ اپنے آپ کو دوسرے غیر قانونی طریقوں میں مصروف کرلے کیونکہ پالیسی کہتی ہے کہ اگر آپ کے پاس مطلوبہ نمبرز نہیں تو آپ اہل نہیں۔

لہذا درخواست ہے کہ حکومت کو اس پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ اس ملک کا ہر طالب علم اپنا مستقبل سنوار سکے اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ اپنی قابلیت و اہلیت کے مطابق ڈالے اور اس کی تعمیر میں ایک مثبت کردار ادا کرے۔ 


سید شرجیل احمد قریشی انٹرنیشل ریلیشنز میں ایم فل کے طالبعلم ہیں۔



جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔