کھیل
Time 07 دسمبر ، 2017

پی سی بی نے ٹی 10 لیگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کو کھیلنے کی اجازت دیدی

اسلام آباد: پاکستان کرکٹ بورڈ نے متنازع طور پر اپنے کانٹریکٹ یافتہ کھلاڑیوں کو رواں ماہ شارجہ میں ہونے والی ایک لیگ کھیلنے کی اجازت دے دی ہے جس کی وجہ سے پی سی بی کی اپنی پاکستان سپر لیگ کی کامیابی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

یہ لیگ آئی سی سی کی جانب سے منظور شدہ نہیں جبکہ اس میں چھ میں سے پانچ ٹیمیں کے مالک بھارتی ہونے کے باوجود کوئی بھارتی کھلاڑی یہ لیگ نہیں کھیل رہا جبکہ ایک لیگ کے مالک افغان ہیں۔

پی سی بی نے این او سی جاری کرنے میں تیزی اس وجہ سے دکھائی کیوں کہ پی ایس ایل فرنچائز مالکان نے پاکستانی کھلاڑیوں کے لیگ میں شرکت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس طرح کا ردعمل دیکھنے کے بعد پی سی بی نے ٹی 10 لیگ کی حمایت کرنے کا فیصلہ کی جس پر اس سے قبل بورڈ میں ووٹنگ کی جانی تھی۔

کرکٹ ماہرین پی سی بی کے اس فیصلہ کو پی ایس ایل کے لیے خودکشی قرار دے رہے کیوں کہ ٹی 10 لیگ میں پاکستان کے صف اول کے کھلاڑی شرکت کررہے ہیں جبکہ انہوں نے اسے پی ایس ایل سے قبل مینی پی ایس ایل قرار دیا۔

رواں سال ستمبر میں پی ایس ایل فرنچائز کراچی کنگز نے چیئرمین پی سی بی کا ایک خط لکھا جس میں اس لیگ کی وجہ سے پی ایس ایل پر پڑنے والے منفی اثرات پر تحفظات کا اظہار کیا۔

ای میل میں کہا گیا کہ لیگ کی حمایت سے دبئی اور پاکستان میں بھی اسپانسرز متاثر ہوں گے جبکہ ای میل میں پاکستانی کھلاڑیوں کو اس میں شرکت نہ کرنے دینے کا بھی مشورہ دیا گیا۔

دی نیوز انویسٹی گیشن سیل نے مختلف ذرائع سے وہ ای میلز اور پی ایس ایل سیکریٹریٹ کے منٹس دیکھے جس میں پی ایل ایل فرنچائزز نے احتجاج کیا۔

پشاور زلمی نے موقف اختیار کیا کہ پی سی بی نے پی ایس ایل کے ذریعے بہترین کھلاڑی پیدا کیے ہیں پھر پی سی بی اس لیگ میں اپنے کھلاڑی کیوں بھیج رہا ہے جہاں ایک بھی بھارتی کھلاڑی موجود نہیں، ہمارے کھلاڑی پھنس سکتے ہیں اور بلیک میل بھی ہوسکتے ہیں۔

لاہور قلندرز کے نمائندوں کو یقین دلایا گیا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو بھیجنے کا فیصلہ ووٹنگ کے بعد ہی کیا جائے تاہم پی سی بی اپنے کھلاڑی بغیر ووٹنگ کے ہی بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔

ملتان اور اسلام آباد کا موقف تھا کہ پی سی بی اپنے ریٹائرڈ یا دوسرے درجے کے کھلاڑیوں کو لیگ میں شرکت کرنے کی اجازت دے دے تاہم صف اول کے کھلاڑی روک لے تاہم پی سی بی نے ان مشوروں نہیں مانا۔

جب فرنچائزز مالکان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس حوالے سے ریکارڈ پر تبصرہ کرنے سے انکار پی سی بی کے ڈر سے کردیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے فیڈ بیک اور تحفظات سے پی سی بی آگاہ ہے۔

رابطہ کرنے پر سابق پی سی بی چیئرمین ذکا اشرف، سابق کپتان جاوید میاں داد اور ظہیر عباس نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان، جو کہ پی سی بی کے پیٹرن ان چیف ہیں، کو بھی مداخلت کرنے اور پاکستان کرکٹ کو بچانے کے حوالے سے درخواست کی گئی ہے۔

اس رپورٹ کو فائل کرنے تک پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی نے پیغامات کا جواب نہیں دیا تھا

پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی سے جب رابطہ کیا تو انہوں نے پیغامات کا جواب اس رپورٹ کے فائل کرنے تک نہیں دیا تھا تاہم ان آفیشل بیان میں پی سی بی کا کہنا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی لیگ کمپنی دبئی کی ایک کمپنی ہے اور ہمیں میزبان ملک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے ہیں۔

ایک پی سی بی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابتدائی طور پر پی سی بی نے کھلاڑیوں کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ایک فرنچائز اونر نے چیئرمین پی سی بی کو اس پر قائل کرلیا۔

پی سی بی کو کھلاڑیوں کو لیگ میں بھیجنے کے عوض چار لاکھ امریکی ڈالر کا معاوضہ بھی دیا جائے گا۔

یہ خبر 7 دسمبر کے دی نیوز میں شائع ہوئی۔

مزید خبریں :