بلاگ
Time 08 دسمبر ، 2017

سندھ کا نوحہ

فائل فوٹو—۔

جہالت ہماری رگوں میں ہے، شاید اسی لیے ہم ایسے ہی لوگوں کو ہر 5 سال بعد نوازتے ہیں، ووٹ دیتے ہیں، حق حکمرانی دیتے ہیں اور پھر خود کو غلامی کے کھونٹے سے باندھ لیتے ہیں۔

ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟

سندھ اس وقت جہالت کی جس معراج پر ہے وہاں دوسرے صوبوں کا پہنچنا بہت مشکل امر ہے۔ یہاں تعلیم کے نام پر جہالت اور صحت کی جگہ بیماری اور شعور کے بجائے غلامی دی جاتی ہے اور اس کا سارا 'کریڈٹ' پیپلزپارٹی کو جاتا ہے۔

جہاں باقی پاکستان کسی نہ کسی طرح جدت کی دیوار پھلانگ کر پسماندگی کو شکست دینے میں مصروف ہے، وہیں بیچارہ عام سندھی پچھلی صدی میں زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ آپ اندرون سندھ چلے جائیں تو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں آپ کا استقبال کریں گی، بند اسکول آپ کا منہ چڑائیں گے اور اسپتال ڈاکٹرز کے بغیر شفا بانٹنے میں مگن ہوں گے۔

سوچ اور عمل کی اس زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے؟ عوام یا حکمران؟ یقیناً عوام پر ذمہ داری پہلے آتی ہے ،کیونکہ جب وہ اپنے ووٹ کا استعمال غلط کرتے ہیں تو فکر سے عاری حکمران جنم لیتے ہیں۔

سندھ محرومیوں کی داستان ہے، اس کا نوحہ لکھنا آسان نہیں، سوچنے لگو تو حیرتوں کے ایسے سلسلے شروع ہوتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے، وہاں بھٹو ہر گلی کوچے میں زندہ ہے مگر عام ہاری جینے کی آرزو میں سسک سسک کر مر رہا ہے۔روٹی،کپڑا اور مکان کا وعدہ کرنے والی جماعت عوام کے منہ سے نوالہ تک چھین چکی ہے۔ غربت یہاں دہائیوں سے بال کھولے سو رہی ہے اور پیپلزپارٹی کی حکومت اسے جگانے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔

 بھٹو ازم سندھ میں صرف سیاسی نعرہ نہیں بلکہ عقیدے کا نام ہے۔ شاید اس لیے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو عمل کرنے والے آدمی تھے اور موجودہ قیادت بے عملی کا عالیشان نمونہ ہے۔ اقبال نے شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیےکہا تھا:

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا

پسماندگی ایک کیفیت کا نام ہے جو انسانوں پر رفتہ رفتہ طاری ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کے سندھ کو یہاں تک پہنچتے پہنچتے پچاس برس لگے ہیں، پورا سندھ نہ سہی جیالے لاڑکانہ کو ہی ٹھیک کر لیتے تو تھوڑی بہت عزت رہ جاتی۔ سندھ ہائیکورٹ تک کہہ چکی ہے کہ 'ڈائن بھی سات گھر چھوڑ کر واردات کرتی ہے مگر پیپلز پارٹی نے تو لاڑکانہ کو بھی نہ بخشا اور وہاں کے منصوبوں میں بھی اربوں روپے کی کرپشن کی گئی'، کاش پیپلزپارٹی اپنے گھر کی ہی حفاظت کرلیتی، یہ لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو کیا منہ دکھائیں گے؟

تشویش کی بات یہ ہے کہ سندھ میں جہالت اور کرپشن بانجھ پن کا شکار نہ ہو سکی اور اب وہ پسماندگی کی سیڑھی چڑھ کر کراچی جیسے شہر میں بھی پنجے گاڑھ چکی ہے، گزشتہ دس سالوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے کراچی کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، وہ قابل مذمت بھی ہے اور باعث ندامت بھی۔

کراچی کو 'کچرے کا شہر' بنا دیا گیا ہے، یہاں کی سڑکیں اور گلیاں کوڑے دان کا کام کر رہی ہیں، عام آدمی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ٹینکر مافیا پورے شہر پر قابض ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، یہاں دو نمبری اور چور بازاری اس لیے بھی عام ہے کیونکہ حکمرانوں کا اپنا ہاتھ عوام کی جیب میں رہتا ہے۔

سندھ کا معاشی حب اور قائد کا شہر کرا چی، جو کبھی حکیم سعید، راشد منہاس، مشتاق یوسفی اور جمیل الدین عالی کی خدمات کے باعث پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، آج دہشت گردوں، بھتہ خوروں اور لسانی گروہوں کے باعث بدنامی کی پاتال میں گرا ہوا ہے۔ بدانتظامی اور لاقانونیت عروج پر ہے اور حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ کے ڈی  اے کے چیئرمین سپریم کورٹ کو بتا چکے ہیں کہ '35 ہزار پلاٹوں پر قبضہ کیا جاچکا ہے'، لیکن حکومت ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ کراچی اور اندرون سندھ ہر دوسرا شخص اس سب کا ذمہ دار پنجاب کو سمجھتا ہے، میں حیران ہو جاتی ہوں کہ یہ لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ کیا کبھی کوئی پنجابی سندھ کا وزیراعلیٰ رہا ہے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے، تو بنا سوچے سمجھے الزام کیوں لگایا جاتا ہے؟ اور یہ تاثر صرف سندھ تک محدود نہیں ہے بلکہ باقی صوبوں میں بھی اسی طرح کی سوچ پائی جاتی ہے، جو سراسر زیادتی ہے۔

گذشتہ 70 سالوں سے سندھ میں سندھی، خیبرپختونخوا میں پٹھان اور بلوچستان میں بلوچ حکمران رہے ہیں تو پنجابی کو گالی کیوں دی جاتی ہے؟ یہاں کے لوگ یہ تک نہیں سوچتے کہ جنرل ضیاء الحق اور نواز شریف کے علاوہ کوئی بھی پنجابی وفاق میں بھی حکمران نہیں رہا،  پہلے 10 سالوں کو چھوڑ دیں کہ وہ سیاسی افراتفری کا زمانہ تھا، اس کے بعد کا جائزہ لیں تو ایوب خان اور جنرل یحییٰ کا تعلق خیبرپختونخوا سے تھا، ذوالفقار علی بھٹو، محمدخان جونیجو، محترمہ بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف اور آصف علی زرداری سب سندھ کے رہنے والے تھے، کوئی بتائے کہ انہوں نے اس صوبے کے لیے کیا کیا؟

چراغ تلے اندھیرا کیوں ہوتا ہے یہ دنیا کا کوئی سائنس دان نہیں بتاسکا، مگر پیپلزپارٹی نے سندھیوں کو جاہل کیوں رکھا، اس کے  پیچھے کوئی لمبی چوڑی سائنس نہیں چھپی ہوئی۔ سب مفادات کا کھیل ہے، جہاں لوگوں کو محرومی دے کر ووٹ لیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ جب تک سندھی غریب ہے، اَن پڑھ ہے، اس کا بھٹو کے ساتھ رومانس کوئی ختم نہیں کرسکتا اور جب تک بھٹو کا نعرہ زندہ ہے، سندھ سے پیپلز پارٹی کو کوئی نہیں نکال سکتا۔

اب ساری ذمہ داری سندھ کے باسیوں پر آتی ہے، وہ اگر اپنے حالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو ووٹ کی طاقت استعمال کرنا ہوگی، سندھ کی قیادت بدلنا ہوگی۔ اگر آصف زرداری کی پیپلز پارٹی عوام کو کچھ نہیں دے سکی تو عوام کی طرف سے بھی واضح پیغام ضرور جانا چاہیے ۔

تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی

تو نہیں اور سہی اور نہیں او ر سہی

عوام کی طرف سے پیپلزپارٹی کی گولڈن جوبلی پر اس سے اچھا تحفہ نہیں ہوسکتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔