بلاگ
Time 09 دسمبر ، 2017

شہباز شریف کی باری؟

دیکھنا یہ ہوگا کہ شہباز شریف کو بڑی باری ملے گی یا ان کے چھوٹے اقتدار کی بھی بازی لگ جائے گی—۔فائل فوٹو/آن لائن

ایسا کیا ہوگیا کہ وہ جو سب کا پسندیدہ تھا یکایک ناپسندیدہ بن گیا۔ آصف زرداری، عمران خان، طاہر القادری سب یک زبان ہیں کہ اب اسے نکالیں گے۔

صرف تین ماہ پہلے لگتا تھا کہ شہباز شریف کو بالآخر بڑے اقتدار کی باری ملنے والی ہے، مگر اب ایسے محسوس ہورہا ہے کہ ان کے چھوٹے اقتدار ہی کی بازی لگنے والی ہے۔ تین ماہ میں شہباز شریف نے کچھ تو ایسا کیا ہو گا کہ سب کچھ بدل گیا ہے حالانکہ پہلے تو شہباز شریف کو ہر درد کا درماں سمجھا جاتا تھا۔ نوازشریف کی جگہ شہباز شریف کو بٹھانے کا منصوبہ مکمل تھا اور توقع یہی تھی کہ یہ تبدیلی کوئی اتنی مشکل بھی نہیں ہوگی کیونکہ عمران خان کے دھرنے کے موقع پر خود نواز شریف، اپنے بھائی کو کہہ چکے تھے کہ 'اب میری جگہ تم آ جاؤ'۔

 سات آٹھ اور مواقع پر بھی وہ یہی پیشکش شہباز شریف کو کر چکے تھے لیکن شہباز شریف اگلے الیکشن کے بعد مرکز میں جانا چاہتے تھے، اس لیے وہ مسلسل انکار کرتے رہے۔ 'دوسری' طرف بھی شہباز شریف کی شہرت اور تاثر اچھا تھا مگر اچانک کیا ہوا کہ سب پتھروں کا نشانہ شہباز شریف بن گئے؟ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے آپ کو ایک تازہ گفتگو سناتا ہوں۔

شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ اقبال کے نواسے میاں یوسف صلاح الدین عملی سیاست سے تائب ہیں۔ ان کی ساری توجہ ثقافت، موسیقی اور پاکستانیت کو اجاگر کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔ خود اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر اشرافیہ ہی کو پاکستان کے زوال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ عمران خان کے ذاتی دوست اورمداح ہیں۔ ان کے خیال میں عمران خان ہی وہ واحد سیاست دان ہیں جو میرٹ ، انصاف اور دیانتداری سے ملک کو سیدھی پٹری پر چڑھا سکتے ہیں۔

کل اچانک سوشل میڈیا پر علامہ اقبال کی آواز میں 'شکوہ' کو 'اَپ لوڈ' کیا گیا۔ مجھے شک ہوا کہ علامہ اقبال کی آواز ایسی ہو نہیں سکتی۔ میں نے میاں یوسف صلاح الدین کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا یہ آواز واقعی علامہ اقبال کی ہے تو یوسف صلاح الدین نے کہا کہ جب یہ وائس نوٹ کئی سال پہلے سامنے آیا تھا تو میرے ماموں ڈاکٹر جاوید اقبال اور میری والدہ منیرہ صلاح الدین کے ساتھ بیٹھ کر سارے خاندان نے اسے سنا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ بالکل جعلی ہے، علامہ اقبال کی آواز بہت سریلی اور پرسوز تھی، یہ آواز کسی طرح بھی علامہ اقبال سے نہیں ملتی۔

بات شاعری سے ہوتی ہوئی سیاست پر آئی تو قہقہہ لگا کر بے لاگ لاہوری انداز میں کہنے لگے، 'میرے خیال میں آئیڈیل یہ ہوگا کہ مرکز میں عمران خان کی حکومت ہو جبکہ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت۔ دونوں میں ملکی ترقی کا مقابلہ ہو'۔

پھر کہا، 'شہباز شریف نہ سوتا ہے نہ تھکتا ہے، خلوص سے ملک کی خدمت کر رہا ہے، اتنی تیز رفتار ترقی کی کوئی اور مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی'۔

میں نے جواباً کہا کہ 'آگ اور پانی کہاں اکٹھے ہوسکتے ہیں، عمران اور شہباز شریف کا ساتھ ممکن نہیں'۔ یوسف نے کمال بے نیازی سے کہا کہ 'میں نے تو عمران خان کو بھی کہہ دیا تھا کہ اوپر تم ہو اور نیچے شہباز شریف، تب پاکستان کا فائدہ ہوگا'۔ میاں یوسف نے کہا 'ایسے لگتا ہے کہ اب سب شہباز شریف کے پیچھے لگ گئے ہیں حالانکہ وہ تو بڑا محنتی ہے'۔ ٹیلی فون کال ختم ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ایک اہم سیاسی موڑ بس آنے کو ہے۔۔۔

اچانک یاد آیا کہ شہباز شریف سے پہلی دو ملاقاتیں انتہائی ناخوشگوار تھیں۔ پہلی ملاقات 1997 میں بطور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا انٹرویو کرنے کے دوران ہوئی۔ میں نے صحافیانہ سوال کیے تو وہ ناراض ہونے لگے، اُس وقت وہ جارحانہ زیادہ ہوا کرتے تھے۔ انٹرویو پینل کے باقی لوگوں سے پوچھنے لگے یہ کون اپوزیشن کا آدمی لے آئے ہیں۔میرے ساتھی ہنس کر خاموش ہو رہے۔

دوسرے دن انٹرویو شائع ہوا تو اس میں سے سرخیاں وہی نکلیں جو میرے سوالات کے جوابات پر مشتمل تھیں۔ شہباز شریف بہت سیخ پا ہوئے۔ میرے سینئرز سے شکایت کی، انہوں نے فہمائشی انداز میں مجھے سمجھا بجھا کر معاملہ ٹھنڈا کر دیا۔ 

دوسری ملاقات شریف خاندان کی جدہ جلاوطنی کے دوران ہوئی۔ سرور محل میں میری ملاقات نواز شریف سے ہونے والی تھی۔ میں ساتھ والے کمرے میں منتظر تھا کہ اچانک شہباز شریف تیزی سے آئے اور میاں نواز شریف کے کمرے میں چلے گئے۔ میرے دوست سہیل ضیا بٹ اور کیپٹن صفدر نے مسکراتے ہوئے مجھے کہا، 'لگتا ہے کہ شہباز شریف صاحب آ پ کی کوئی شکایت کرنے آئے ہیں'۔

گھر کے بھیدی سچے نکلے، میں جوں ہی نواز شریف سے ملنے ان کے کمرے میں پہنچا تو ان کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ بڑی مشکل سے انہیں مائل بہ گفتگو کیا تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ 'آپ تو ہمارے خلاف لکھتے رہے ہیں'۔ میں اس حملے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا، اس لیے جواباً کہا، 'آپ کے خلاف نہیں آپ کی پالیسیوں کے خلاف لکھتا رہا ہوں'۔ اور پھر یہ کہہ کر ان کاغصہ ٹھنڈا کیا، 'آج آپ کے خوشامدی تو آپ سے ملنے کے روادار نہیں لیکن میں انٹرویو کرنے آیا ہوں'۔ خیر وہ انٹرویو ہوگیا۔ دوسرے روز شہباز شریف صاحب نے میرے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کیا جس کی تفصیلی کہانی پھر کبھی سہی۔

غرضیکہ شہباز شریف سے ملاقاتوں کا آغاز ناخوشگوار تھا جو آہستہ آہستہ باہمی احترام میں بدل گیا۔ اب وہ اختلاف سنتے بھی ہیں اور ان کا انتہائی تحمل سے جواب بھی دیتے ہیں۔

ابھی تھوڑے دن پہلے ملاقات ہوئی تو میں نے سوال داغا، 'آپ بھائی کے ساتھ کھڑے ہیں یاکچھ اور ارادے ہیں؟' ہنس کر کہنے لگے 'بھائی کو چھوڑنے کا آپشن تو کبھی تھا ہی نہیں۔ بعض اوقات خیالات میں فرق ضرور ہوتا ہے مگر پالیسی نواز شریف ہی کی چلتی ہے'۔ میں نےمزید ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ قومی اسمبلی میں نااہل عہدیدار کے حوالے سے قانون سازی روکنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ پھر یہ بھی کہا کہ 'مجھے تو نواز شریف خود کئی بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کا کہہ چکے ہیں لیکن میں ہر بار انکار کرتا رہا ہوں۔ کیا میں ایسے مشکل وقت میں اپنے ہی بھائی کے خلاف کھڑا ہوں گا؟' 

کل پرسوں سے شہباز شریف کے خلاف اپوزیشن متحرک ہوئی تو فوراً خیال آیا کہ اس کی فوری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فارورڈ بلاک بننے سے روکا، جلدی انتخابات کی حمایت نہ کی اور ارکان اسمبلی سے مسلسل رابطہ رکھا، وگرنہ یہ تو سب ہی کو علم ہے کہ ان کی رائے مفاہمانہ ہے اور شاید ن لیگ کی نئی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی پر بھی ان کے تحفظات ہوں کیونکہ اس میں زیادہ تر لوگ مزاحمتی ہیں۔ پارلیمانی اور انتخابی رنگ بہت کم ہیں۔ مگر شہباز شریف خاموش ہیں۔ انہیں بار بار کے تجربے سے شاید یہ معلوم ہو چکا ہے کہ سیاست میں نواز شریف ان سے صائب رائے رکھتے ہیں البتہ مینجمنٹ میں خود شہباز شریف نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ شہباز شریف کو بڑی باری ملے گی یا ان کے چھوٹے اقتدار کی بھی بازی لگ جائے گی۔ دھرنے پھر سے شروع ہوں گے یا یہ معاملہ اتفاق رائے سے طے پائے گا۔ میری رائے میں فوج، حکومت اور اپوزیشن بیٹھ کر آنے والے دنوں کےانتخابی شیڈول اور نگران حکومت پر اتفاق رائے کرلیں، کھینچا تانی سے نقصان ہوگا۔ ملک کے لیے یہی بہترین راستہ ہوگا۔۔


یہ تحریر 9 نومبر 2017 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔