کھیل
Time 11 دسمبر ، 2017

غلط فیصلے چھپانے کیلئے پی سی بی امن کی آشا کے پیچھے چھپ رہا ہے

پی سی بی نے اشارہ دیا ہے کہ رپورٹنگ کی وجہ سے پاکستانی برانڈ جیسے پی ایس ایل پر اثر پڑ رہا ہے، فوٹو: فائل

اسلام آباد: پی سی بی نے نجی اور متنازع لیگ میں پاکستانی کنٹریکٹیڈ کھلاڑیوں کی شرکت کی اجازت کے لئے بولی اور شفافیت میں کمی سے متعلق دی نیوز کی خبر کے جواب میں 48 گھنٹے کے اندر دوسرا پریس ریلیز جاری کیا ہے۔

ٹی ٹین لیگ پی سی بی کے اپنے پی ایس ایل سے مقابلہ کر رہی ہے اور ایک ہی ملک میں چند ماہ کے اندر کھیلی جارہی ہے۔ پی سی بی کے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ حیرت کی بات ہے کہ ایک میڈیا گروپ جو بھارت کے ساتھ امن کی آشاکو فروغ دیتا ہے، بھارتی فلمیں دکھاتا ہے اور انڈین پریمئر لیگ کو پروموٹ کرتا ہے، اسے ٹی ٹین لیگ میں صرف ایک بھارتی سرمایہ کار کی شمولیت پر اعتراض کرنا چاہیےاور پاکستانی برانڈ پی ایس ایل کو خراب کرنا چاہیے۔

پی سی بی نے اشارہ دیا ہے کہ رپورٹنگ کی وجہ سے پاکستانی برانڈ جیسے پی ایس ایل پر اثر پڑ رہا ہے اور گزشتہ پریس ریلیز میں دی نیوز کی رپورٹنگ کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔

جنگ گروپ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی قیادت نے پریس ریلیز کے ذریعے عثمان منظور کی رپورٹنگ سے سامنے آنے والی شفافیت میں کمی کے حوالے سے جواب دینے کے بجائے امن کی آشا اور میڈیا تنازعات کے بیانیے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی ہے۔

گروپ کئی ٹیموں کو اسپانسر اور پروموٹ کرکے اور پی ٹی وی اور ٹین اسپورٹ کی طرح اپنے اسپورٹس چینل پر جگہ فراہم کر کےلیکن ان دونوں سے کم چارجز پر پی ایس ایل کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔

ہم لیگ شروع کرنے والے کسی مدمقابل یا بھاریتوں کے خلاف نہیں لیکن امن کی آشا کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ریاست سے وابستہ اثاثے مفت میں فروخت کر دینے چاہئیں اور وہ بھی کسی مناسب عمل یا غورو فکر کے بغیر۔

پی سی بی کی اطلاع کے لئے بتایا جاتا ہے کہ امن کی آشا، بھارتی فلموں کی نمائش اور انڈین پریمئر لیگ کی پروموشن پاکستانی قوانین کے تحت قانونی ہے لیکن پی سی بی کا اپنے اثاثے بھیجنا یعنی بغیر بولی کے کھلاڑیوں کا لیگ کھیلنا غالبا نہیں ہے۔

دی نیوز کی رپورٹ کے بعد ہی پی سی بی نے مجبور ہو کر کھل کر اطلاع دی کہ نجی لیگ میں کھیلنے کے پاکستانی کھلاڑیوں کے حقوق کے لئے چار لاکھ ڈالر کی پیش کش کی گئی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقوق اثاثے ہوتے ہیں۔

کچھ تجزیہ کاروں، ریٹائرڈ کھلاڑیوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے سوالات جو اٹھائے گئے تھے ان کا مقصد پاکستانی کھلاڑیوں کی مناسب قدروقیمت حاصل کرنا ہے اور اس کے لئے قانون کے مطابق مارکیٹ کا جائزہ لیا جانا اور بولی لگانا چاہیے تھا۔

ایک ممتاز تجزیہ کار سید نیئر الدین نے پی سی بی کے پیٹرن وزیراعظم کو لکھا ہے کہ اگر 80 فیصد پاکستانی شیئرز کے بیان کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر کیوں اے آر وائی کی کراچی کنگ کے نمائندے نے لیگ کی مخالفت میں پی سی بی کو ای میل تحریر کی۔

نجم سیٹھی نے پہلی مرتبہ ہی اجازت دینے سے انکار کیوں کیا تھا؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دستاویزات بعد میں تبدیل کر دی گئی تھیں؟تمام پی ایس ایل فرنچائز رکھنے والے بشمول کراچی کنگ اور پی سی بی کے چیئرمیں نے ریکارڈ پر یہ بات کہی ہے کہ ٹی ٹین لیگ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی اور پی ایس ایل کے لئے نقصان دہ ہوگی اس لئے پاکستانی کھلاڑیوں کو لیگ میں نہیں بھیجنا چاہیے۔

پی سی بی کے بورڈ آف گورنرز کے 45 ویں اجلاس کے نکات میں اس پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ایسی کوئی وینچر جو پی ایس ایل یا پی سی بی کے حق میں نہ ہو اس کی حمایت نہیں کی جائے گی۔

پی سی بی کو معلوم تھا کہ اس ایونٹ کو ای سی بی کی حمایت حاصل تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس وقت تک اس کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا جب تک کہ وہ پی ایس ایل یا پی سی بی کے مفاد میں نہ ہو ، پھر اگلے چار ماہ میں خاص طور پر پی ایس ایل فرینچائز کی جانب سے لیگ میں اسٹیک حاصل کرنے کے بعد پی سی بی نے کیوں اس لیگ کی سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا؟

بورڈ آف گورنر کی 47 ویں میٹنگ کے نکات میں یہ کہا گیا تھا کہ پی سی بی نے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بہت سرگرمی سے غوروفکر کیا تاکہ کھلاڑیوں کو این او سی جاری کیا جائے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز کو اس لیگ کے خلاف سنگین تحفظات تھے اور اسی وجہ سے پی سی بی کو سنجیدہ اور سرگرمی سے دلائل دینے پڑے تاکہ ان کی رضامندی حاصل کی جاسکے۔

تاہم دونوں پریس ریلیز میں پی سی بی نے نہ تو ان اجلاسوں کے نکات جاری کیے اور نہ ہی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مخصوص آبزرویشن کی تفصیلات شیئر کیں۔ پی سی بی نے اپنے پریس ریلیز میں یہ بھی کہا ہے کہ پی سی بی نے انہیں مجبور کیا کہ وہ صرف ان سے کنٹریکٹ کیا جائے جو پی ایس ایل سے وابستہ نہیں ہیں تاکہ ہماری آمدنی کی بنیاد کمزور نہ ہو۔

پی ایس ایل کے ایک فرینچائز مالک نے پی سی بی کی ممکنہ برہمی کی وجہ سے ریکارڈ پر آنے سے انکار کیا لیکن انہوں نے کہا کہ پی سی بی کس طرح پی ایس ایل کے اسپانسرز کو الگ کر کے گی جو ٹی ٹین لیگ کی سپورٹ کررہے ہوں گے؟ اصل میں پی ایس ایل ٹیم کے ایک اسپانسر کو لیگ میں ایک ٹیم کی ملکیت کی پیش کش کی گئی ہے اور یہ اطلاعات ہیں کہ اسپانسر نے پی ایس ایل ٹیم کےلئے اپنے کنٹریکٹ کو اگر منسوخ نہیں کیا ہے تو اپنا بجٹ کم کر دیا ہے۔

پی ایس ایل ٹیم کے ایک اور نمائندے نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ مفادات کا ٹکراؤ نہ ہو، پی ایس ایل جب ہورہا ہوگا تو یہ بہت قریب قریب ہوگا ، ہم اپنے کھلاڑیوں کو زخمی ہوتے دیکھ سکتے ہیں اور چونکہ فارمیٹ ساکھ کے لئے خطرناک ہے اور جواریوں سے خطرہ ہے تو ہمیں یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔ یہ تمام باتیں ہوئی تھیں اور پی سی بی کے چیئرمین نے اس سے اتفاق کیا تھا لیکن کسی وجہ سے راتوں رات اپنا ذہن تبدیل کر لیا۔

پی سی بی نے مزید کہا ہے کہ ہم نے تمام پی ایس ایل فرینچائز سے مشورہ کیا ہے۔ دو کو تحفظات ہیں۔ یہ تحفظات اس وقت ختم ہوگئے جب ہم نے صورتحال کی وضاحت کی اور ہر کسی کو مطمئن کر دیا کہ پی سی بی کے ساتھ کسی کے مفادات کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔

تاہم دی نیوز کو اس کارسپونڈنس تک رسائی حاصل ہے جو ثابت کرتی ہے کہ یہ سچ نہیں ہےاور تمام فرنیچائز ممبر اس اقدام کے خلاف تھے اور زیادہ تر اب بھی ہیں لیکن پی سی بی ان کے خلاف اپنی طاقت استعمال کر رہی ہے۔

تیسرے فرینچائز مالک نے اس رپورٹر کو بتایا کہ پی سی نے تمام پی ایس ایل ٹیموں کے ساتھ اپنے معاہدے میں لکھا ہے کہ ہم ان کے فیصلے کے خلاف سرعام اعتراض نہیں کر سکتے اور اختلاف کا واحد فورم پی ایس ایل سیکریٹریٹ اور اس کے اجلاس ہیں۔

پی سی کے ساتھ معاہدے میں اگرچہ ہم اسے غیرقانونی اور اپنے حقوق کے خلاف سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی بیان کیا ہوا ہے کہ اگرہم پی سی بی سے اختلاف کرتے ہیں تو ہم ان کے خلاف مقدمہ بھی نہیں کر سکتے۔ ایک فرینچائز کے مالک نے اس رپورٹر کو بتایا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ پی سی بی نے کیوں اور کس طرح یوٹرن لیا۔

اگریہ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن پی سی بی کی برداری میں اس بات پر تبادلہ خیال ہوا تھا کہ ایک مشہور اور محترم خاتون صحافی، تجزیہ کار اور سوشلائٹ کی خدمات ایک مقامی ٹی وی چینل کی جانب سے اسپیشل براڈکاسٹنگ پروجیکٹ کے لئے حاصل کی گئی ہیں۔

پی سی بی اپنے حالیہ پریس ریلیز میں بھی اس کا انکشاف کرنے میں ناکام رہی ہے کہ کس عمل کے ذریعے چار لاکھ ڈالر کا عدد آیا؟ پی سی بی نے اس عدد تک پہنچنے کے لئے کیا مسابقتی مارکیٹ ویلیو ایولوشنن پروسیس، ایس او پی یا پالیسی اختیار کی؟

ابتدائی طور پر کتنی رقم کی تجویز پیش کی گئی تھی اور کس طرح سے اس رقم پر مذاکرات ہوئے اور منظوری دی گئی؟ پی سی بی نے کس طرح فیصلہ کیا کہ یہ ہمارے کھلاڑیوں اور پاکستان کرکٹ کی درست قدر وقیمت ہے؟ کیا نجی لیگ کے مالکان یا میزبان ملک کے بورڈ نے اس عدد کی تجویز پیش کی تھی؟ پی سی بی کو چاہیے کہ اپنےفیصلے کی سپورٹ میں کمیونی کیشن کی مکمل تفصیلات شیئر کرے۔

پی سی بی نے غلط طور پر یہ ذکر کیا ہے کہ ٹی ٹین لیگ کی اصل تاریخیں فروری کی ہیں۔ ابتدائی طور پر لیگ دسمبر کے آخری دنوں میں کرایا جانا تھا لیکن پاکستانی کھلاڑیوں کی سہولت کیلئے اسے دسمبر کی طے شدہ تاریخوں سے بھی 10 دن قبل کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔

تاہم پی سی بی نے اپنی تردید میں یہ ذکر کیا ہے کہ میزبان ملک کے بورڈ نے پی ایس ایل کے لئے اپنے وینیو کی کاسٹ میں 10 فیصد کمی کرنے پر اتفاق کیا تھا جس کی وجہ سے اخراجات میں ڈھائی لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی۔مزید براں ایک نام سعد اللہ خان ٹی ٹین لیگ کے مالک کے طور پر کراچی کنگ کے مالکان کے ساتھ سامنے آیا ہے۔

کراچی کنگ سے وابستہ چینل نے تاہم ٹی ٹین اسپورٹس انتظامیہ کا ایک لیٹر ہیڈ نشر کیا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس کے 80 فیصد مالکان پاکستانی شہری ہیں۔ تاہم وہی چینل شارجہ اتھارٹی کا ٹی ٹین اسپورٹس انتظامیہ کے لئے ایک اجازت نامہ بھی نشر کر رہا ہے جس میں ملک اور سعد اللہ خان کے نام ہیں جبکہ اجازت نامے میں کراچی کنگ کے مالک کا نام شامل نہیں ہے۔

پی سی بی کے اندرکے ذرائع کا کہنا ہے کہ سعداللہ اصل میں شجاع الملک کے رشتے دار اور ملازم ہیں جو ٹی ٹین لیگ کے انڈین مالک ہیں۔ الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ٹی ٹین لیگ میں انڈین اونرشپ کو چھپانے کے لئے شجاع الملک کی جانب سے سعداللہ کو شیئرز ٹرانسفر کیے گئے۔ اگر پی سی بی کی جانب سے حسب ضرورت احتیاط برتی جاتی تو وہ پریس ریلیز کے ذریعے ایسی تفصیلات شیئر کر سکتا تھا لیکن یہ تفصیلات دستیاب نہیں تھیں۔

یہ رپورٹ 11 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی

مزید خبریں :