بلاگ
Time 11 دسمبر ، 2017

ختم نبوت اور بھٹو کا سیکولر ازم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا سفارتخانہ یروشلم (القدس) منتقل کر کے عالمی امن کو نئے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکی صدر کی طرف سے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے پر صرف مسلمانوں میں غم و غصہ نہیں پھیلا بلکہ مغرب کے بہت سے لبرل اور سیکولر حکمرانوں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

ٹرمپ کی اس شرانگیزی نے ایک طرف مسلمانوں کو متحد ہونے کا موقع فراہم کیا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں اور مغرب کے لبرل و سیکولر اہل فکر و دانش کے درمیان ڈائیلاگ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے کیونکہ دونوں ٹرمپ کے خلاف ایک ہی نکتہ نظر رکھتے ہیں۔

ٹرمپ کے حالیہ فیصلے کے خلاف پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کو اپنے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہئے تھا۔ بظاہر نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان سے لے کر تمام مذہبی رہنما ٹرمپ کی مذمت کر رہے ہیں لیکن یہ مذمت کمزور اور بے اثر محسوس ہوتی ہے۔ جب یہی رہنما ایک دوسرے کی مذمت کرتے ہیں تو ان کی آوازوں میں اچانک بڑی شدت پیدا ہو جاتی ہے۔

وہ پاکستان جس کے قیام کی بنیاد 23مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کی جانے والی ایک قرارداد تھی، آج اُس پاکستان کے اہل سیاست یہ بھول چکے ہیں کہ 23مارچ 1940ء کو ایک اور قرارداد بھی منظور کی گئی تھی جس میں اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا تھا۔

پھر اسی لاہور میں 1974ء میں ایک اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی اور پاکستان کے ذریعہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ تمام مسلم ممالک تنظیم آزادی فلسطین کے سربراہ یاسرعرفات کے پیچھے کھڑے ہیں۔ آج جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک بھونڈا مذاق بنا دیا ہے تو دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت پاکستان میں اسلام کے نام لیوا اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی بجائے ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈال رہے ہیں اور بعض تو ایک دوسرے کی گردن اڑانے کے درپے ہیں۔

عمران خان اور آصف زرداری مارچ 2018ء سے پہلے پہلے اسمبلیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کے جوش خطابت میں سے کسی سیاسی طوفان کی پیدائش کا انتظار کر رہے ہیں۔

دوسری طرف پیر حمید الدین سیالوی صاحب نے ختم نبوتؐ کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ افسوس کہ ہمارے آج کے اہل سیاست اور حکمران ختم نبوتؐ کے مسئلے کی حساسیت کا اندازہ نہیں کر پائے۔ ہمارے بہت سے ’’پاپولر‘‘ سیاستدانوں نے ختم نبوتؐ کو چند مولویوں کا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کئے رکھا اور اب صورتحال قابو سے باہر ہو رہی ہے تو اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں۔

ان ’’پاپولر‘‘ سیاستدانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ مولوی نہیں تھے لیکن دونوں نے ایک گستاخ رسولؐ کو قتل کرنے والے مسلمان غازی علم دین کا دفاع کیا تھا۔

14اکتوبر 1929ءکو غازی علم دین کو میانوالی ڈسٹرکٹ جیل میں منتقل کیا گیا تو جیل میں اُن سے سجادہ نشین سیال شریف نے ملاقات کی اور اُن کے سامنے قرآن پاک کی سورہ یوسف کی تلاوت کی۔ 31اکتوبر 1929ء کو غازی علم دین کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ 14؍ نومبر 1929ء کو غازی علم دین شہید کو میانی صاحب لاہور میں ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اُتارا۔ اس واقعے کے ایک سال کے بعد ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کی تجویز پیش کی۔

یہ بات اہم ہے کہ قیام پاکستان کے بعد 15اگست 1947ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کی کابینہ نے حلف اٹھایا تو وزارت خارجہ کا عہدہ انہوں نے اپنے پاس رکھا۔ دسمبر 1947ء میں سر ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ کا عہدہ سونپا گیا۔ سر ظفر اللہ خان کے بارے میں سب جانتے تھے کہ وہ احمدی ہیں اور قائد اعظمؒ بھی احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے لیکن وہ اُنہیں ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔ 

سر ظفر اللہ خان کو اپنے عقیدے کے بارے میں قائد اعظمؒ کے خیالات کا علم تھا اور شاید اسی لئے انہوں نے 1948ء میں قائد اعظمؒ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی اور ایک تنازع پیدا ہوا۔ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد وہ مزید 6 سال وزیر خارجہ رہے۔

وزرائے اعظم بدلتے رہے لیکن وزیر خارجہ نہیں بدلا۔ 1953ء کی ختم نبوتؐ کی تحریک میں شدت پیدا ہوئی تو سر ظفر اللہ خان سے 1954ء میں استعفیٰ لیا گیا۔ انہیں دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کا جج بنا دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب بنایا گیا۔ اس خاکسار نے 30نومبر 2017ء کے کالم میں 1974ء میں قومی اسمبلی کی کارروائی کا ذکر کیا تھا جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ ہوا۔ اس کارروائی میں اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار اور جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد کی گفتگو کے دوران اسرائیل میں احمدیوں کے مشن کا ذکر آیا تھا۔

واضح رہے کہ ’میں نے مشن کا ذکر کیا تھا، اسے ہیڈ کوارٹر قرار نہیں دیا تھا۔ بہت سے قارئین نے قومی اسمبلی کی اس تاریخی کارروائی کے مطالعے میں دلچسپی ظاہر کی ہے‘۔

یہ کارروائی قومی اسمبلی کے مطبوعہ ریکارڈ کی آٹھویں جلد میں موجود ہے اور احمدیوں کے اسرائیل میں مشن کا ذکر صفحہ 1061سے 1070میں ہے تاہم اس ریکارڈ کے مطابق مرزا ناصر احمد نے یہ بتایا کہ اسرائیل میں احمدیوں کا مشن 1947ء سے کافی سال پہلے قائم کیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی کی اس کارروائی کو مولانا اللہ وسایا صاحب نے ’’تاریخی قومی دستاویز 1974‘‘ کے نام سے شائع بھی کیا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے ناموس رسالتؐ کے بارے میں فیصلے کو کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔

’’ناموس رسالتؐ، اعلیٰ عدالتی فیصلہ‘‘ کے نام سے یہ خوبصورت کتاب سلیم منصور خالد صاحب نے مرتب کی ہے اور اس فیصلے کی تائید میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، مفتی منیب الرحمان صاحب، علامہ ساجد نقوی صاحب، آغا سید حسین مقدسی صاحب، ڈاکٹر محسن نقوی، مولانا زاہد الراشدی، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر اور دیگر اہل فکر و دانش کی تحریروں کو کتاب میں شامل کر کے ناموس رسالتؐ پر اجماع اُمت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے 7ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی میں ختم نبوتؐ پر کی جانے والی تقریر بھی شامل کی گئی ہے جس میں بھٹو صاحب نے کہا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا اصول یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ ہماری سیاست کا دوسرا اصول یہ ہے کہ جمہوریت ہماری سیاست ہے۔

قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا ہے یہ ایک مذہبی فیصلہ بھی ہے اور سیکولر فیصلہ بھی ہے۔ مذہبی فیصلہ اس لحاظ سے کہ یہ مسلمانوں کو متاثر کرتا ہے جو پاکستان میں اکثریت رکھتے ہیں اور سیکولر اس لحاظ سے کہ ہم دور جدید میں رہتے بستے ہیں اور تمام پاکستانیوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں وہ بغیر کسی خوف کے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں۔ جو لوگ سیکولر ازم کو لادینیت سمجھتے ہیں وہ بھٹو صاحب سے اتفاق نہیں کریں گے لیکن بھٹو صاحب سیکولر ازم کو لادینیت نہیں بلکہ رواداری سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنی اس تقریر میں کہا کہ اس ملک میں بدنظمی اور فسادی عناصر کا غلبہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام ہمیں رواداری کا پیغام دیتا ہے اسلامی معاشروں نے تاریک زمانوں میں یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا اور یہودیوں نے سلطنت عثمانیہ میں آ کر پناہ لی۔

ہم ایک اسلامی مملکت ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام فرقوں اور پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں طور پر تحفظ فراہم کریں۔ یہ کتاب ضرور پڑھئے اور پاکستان کا آئین بھی ضرور پڑھئے۔ اس آئین کو بھی سازشوں سے بچایئے۔ ختم نبوتؐ کا تحفظ ضرور کریں لیکن اس آئین کے بھی محافظ بنئے جس نے 1974ء میں ختم نبوتؐ کو تحفظ دیا۔

سینئر صحافی حامد میر کی یہ تحریر 11 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔