پاکستان
Time 12 دسمبر ، 2017

پاکستان فلسطین کے مسئلے کو مسئلہ کشمیر کی طرح دیکھتا ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے فلسطین کے سفیر ایچ ای ولید اے ایم ابو علی نے جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں ملاقات کی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ایک اعلامیے کے مطابق فلسطینی سفیر نے فلسطین کاز کے لیے پاکستان کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔

آرمی چیف نے فلسطینی سفیر کو کہا کہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کو پاکستانی قوم کی اخلاقی اور سیاسی حمایت حاصل ہے اور دونوں مسئلوں پر اصولی موقف کی حمایت جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان فلسطین کے حل طلب مسئلے کو مسئلہ کشمیر کی طرح دیکھتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ ملاقات ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب کچھ روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی دباؤ مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا نے دو دہائیوں تک اس اقدام سے گریز کیا لیکن اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پائیدار امن کے کوئی آثار نظر نہیں آئے لہٰذا اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے۔

پاکستان،سعودی عرب، فلسطین، اردن، مراکش،ترکی، مصر، عرب لیگ یہاں تک کہ یورپی یونین کے کئی اتحادی ممالک نے بھی اس امریکی فیصلے کی مخالفت کی ہے۔

آرمی چیف کی نائب سعودی وزیر دفاع سے ملاقات

دوسری جانب آرمی چیف سے سعودی نائب وزیر دفاع ایچ ای محمد بن عبداللہ نے بھی ملاقات کی جس کے دوران دو طرفہ دفاعی تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال ہوا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں علاقائی سلامتی پر بھی تبادلہ خیال ہوا جبکہ سعودی وزیر نے پاکستانی فوج کی کارکردگی اور پیشہ وارانہ مہارت کو سراہا۔

بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ

مقبوضہ بیت المقدس جسے یروشلم بھی کہا جاتا ہے دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

1948 میں جب برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست قائم کی تو یروشلم اس کا حصہ نہیں تھا۔ اقوام متحدہ نے علاقے کو فلسطین اور اسرائیل میں تقسیم کرنے کے لیے جو نقشہ بنایا اس میں بھی یروشلم کو بین الاقوامی کنٹرول میں دینے کی سفارش کی تھی۔

مگر فلسطینیوں نے یہ پلان تسلیم نہیں کیا اور اپنے پورے علاقے کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ 1948 کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی یروشلم پر قبضہ کر لیا جب کہ مشرقی یروشلم اردن کے کنٹرول میں رہا۔

1967کی جنگ میں اسرائیل نے عربوں کی متحدہ فوج کو شکست دے کر اردن سے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم کا علاقہ بھی چھین لیا۔

اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو اپنا علاقہ قرار دیا تو 1967ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی مخالفت کی۔

1993 کے اوسلو معاہدے کے تحت فلسطین اور اسرائیل نے ایک دوسرے کا وجود تسلیم کیا،غزہ اور مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم کی گئی۔

اس معاہدے میں یروشلم کا معاملہ بعد میں طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن نیتن یاہو کی سخت گیر حکومت قائم ہونے کے بعد سے رہے سہے مذاکرات بھی ختم ہو گئے اور اب اسرائیل مشرقی یروشلم کے علاقوں میں بھی یہودی بستیاں قائم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

ایمبسی ایکٹ

خیال رہے کہ اسرائیل میں موجود امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے حوالے سے امریکی کانگریس نے 1995 میں قانون پاس کیا تھا جس کے بعد آنے والے ہر امریکی صدر سے اس پر عملدرآمد کرانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔

اب ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسی ایکٹ کے تحت مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔

اس ایکٹ کے تحت امریکا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارتخانہ بھی تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا پابند ہے۔

البتہ یہ قانون آج تک نافذ العمل نہیں ہوسکا تھا اور 1995 سے اب تک ہر امریکی صدر قومی سلامتی کے نام پر اس اقدام کو موخر کرتا آیا تھا۔

مقبوضہ بیت المقدس کی خودمختاری کو یقینی بنانے اور اس شہر میں موجود مقدس مقامات کی دیکھ بھال کے حوالے سے متعدد منصوبے بنائے جاچکے ہیں۔

خیال رہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں کئی تاریخی مقامات موجود ہیں جو جنہیں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب ہی مقدس سمجھتے ہیں۔

مزید خبریں :