بلاگ
Time 14 دسمبر ، 2017

پاکستان کی 'آئرن لیڈی' کے نام

منیبہ پاکستان کی وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے اپنا خیرسگالی سفیر مقرر کیا—۔فوٹو/بشکریہ منیبہ مزاری فیس بک پیج

میں نے اسے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو میں بولتے سنا۔ وہیل چیئر پر بیٹھی ایک بااعتماد سی لڑکی، جو دوسروں کو جینے کا ہنر سکھا رہی تھی۔

اس نے بولنا شروع کیا۔۔۔'میں 18 سال کی تھی جب میری شادی ہوئی، میرا تعلق ایک کنزرویٹو فیملی سے تھا، میں نے اپنے والدین کی خواہش پر سر جھکا دیا، لیکن یہ ایک خوشگوار شادی نہیں تھی'۔

میں نے سنا، وہ کہہ رہی تھی، 'شادی کے 2 سال بعد میرا ایکسیڈنٹ ہوا، میرا (سابق) شوہر گاڑی سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور میں گاڑی سمیت کھائی میں جاگری اور میری ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی'۔

اس نے کہا، ' ڈاکٹر نے ایک روز مجھے آکر بتایا، تم کبھی پینٹ نہیں کرسکو گی، اگلے روز بتایا گیا تم کبھی ماں نہیں بن سکو گی'۔

وہ کہہ رہی تھی، 'ڈاکٹروں کے منہ سے یہ سب سننے کے بعد میں نے سوچا کہ آخر میں زندہ ہی کیوں ہوں؟'

پھر وہ لڑکی بولی، 'میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھے کچھ رنگ لا دیں، میں پینٹ کرنا چاہتی ہوں اور تب میں نے پہلی مرتبہ اپنے دل کا حال کینوس پر اتارا'۔

اس نے کہا، 'میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اپنے لیے جیوں گی، میں نے اپنے سارے خوف لکھنے شروع کیے، میرا سب سے بڑا خوف طلاق تھا، جس پر میں نے قابو پالیا'۔

میں اسے سن رہی تھی، اس نے کہا، 'میں نے اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنالیا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ میرا (سابق) شوہر شادی کر رہا ہے تو میں نے اسے مبارکباد کا پیغام بھیجا'۔

پھر اس نے کہا، 'میرا دوسرا خوف یہ تھا کہ میں کبھی ماں نہیں بن سکتی، میں نے بچہ گود لینے کے لیے مختلف جگہوں پر اپنا نام دیا اور پھر ایک چھوٹے شہر سے مجھے کال آئی اور میں نے ایک بچہ گود لے لیا'۔

وہیل چیئر پر بیٹھی اس باہمت لڑکی کا نام منیبہ مزاری ہے، پاکستان کی وہ پہلی خاتون جنہیں اقوام متحدہ نے اپنا خیرسگالی سفیر مقرر کیا، منیبہ ایک موٹیویشنل اسپیکر، ایک مصورہ، مقررہ اور ایک سماجی کارکن بھی ہیں۔

منیبہ محض 21 برس کی عمر میں کار ایکسیڈنٹ کے باعث وہیل چیئر تک محدود ہو گئی تھیں۔ منیبہ کے بقول اس حادثے نے جہاں ان کی زندگی اور شخصیت کو تبدیل کیا، وہیں دنیا کو دیکھنے کا انداز بھی بدل گیا، انہوں نے ایک معذور اور لاچار لڑکی کے بجائے ایک باہمت لڑکی بننے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد ہم نے مختلف پلیٹ فارمز پر انہیں بولتا سنا۔

حال ہی میں منیبہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں اپنی جدوجہد کی کہانی بیان کرتے کرتے انہوں نے اپنے شوہر کا بھی تذکرہ کیا، اسے دبے لفظوں میں ایک شکوہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ کہانی شاید یونہی رہتی اور سب کچھ منیبہ کے حق میں رہتا، اگر ان کے سابق شوہر خرم شہزاد منظر عام پر آکر اپنی ساکھ خراب کرنے پر منیبہ پر 10 لاکھ روپے ہرجانے کا مقدمہ نہ کرتے۔

خرم شہزاد جو کبھی پاکستان ایئرفورس سے وابستہ تھے، آج کل بحیثیت کمرشل پائلٹ کام کر رہے ہیں۔

ان دونوں کی شادی 2005 میں ہوئی تھی، فروری 2008 میں ان کا ایکسیڈنٹ ہوا اور 2015 میں دونوں کی طلاق ہوگئی۔

خرم نے الزام عائد کیا کہ ایکسیڈنٹ کے بعد انہوں نے ہر طرح سے منیبہ کا ساتھ دیا، ان کی پینٹنگز کے شوق کو پروان چڑھانے میں بھی کردار ادا کیا، لیکن بقول خرم، منیبہ گلوکاری اور ماڈلنگ میں نام بنانا چاہتی تھی، جو ان کی خاندانی اقدار و روایات کے خلاف تھا۔

منیبہ کے سابق شوہر کے الزامات اپنی جگہ لیکن کہانی میں ٹوئسٹ اُس وقت آیا، جب منیبہ کی ایک اور ویڈیو منظرعام پر آئی، جس میں وہ اپنے (سابق) شوہر کی تعریف کرتی نظر آئیں۔

جس سے یہ تاثر ابھرا کہ نہ جانے کون سی بات درست ہے؟ حال ہی میں وائرل ہونے والی منیبہ کی وہ ویڈیو، جس میں وہ اپنے شوہر سے شکوہ کرتی نظر آئیں یا وہ ویڈیو، جس میں وہ اپنے شوہر کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آئیں۔

اس ویڈیو تضاد کے بعد سوشل میڈیا پر منیبہ مزاری اور ان کی ذات پر ہر کسی نے اپنی 'سمجھ بوجھ' کے لحاظ سے تبصرے کیے اور طرہ امتیاز یہ کہ معذوروں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم نے بھی یہ کہہ کر منیبہ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا کہ وہ معذوری کے بہانے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ رہی ہیں۔

یہ اور اس جیسی اور بہت سی باتوں کے بعد منیبہ نے فیس بک پر ایک نہایت جذباتی پیغام پوسٹ کیا۔

اپنے پیغام میں منیبہ نے کسی کو براہ راست مخاطب نہیں کیا، ہاں لیکن یہ بات ضرور واضح کردی کہ ان کا وائرل ہونے والا پی ٹی وی کا ویڈیو کلپ اُس دور کا ہے، جب وہ اپنا بھرم قائم رکھنے اور اپنی شادی شدہ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔

منیبہ نے مزید کہا کہ اگر ہم کسی کو پیار اور عزت نہیں دے سکتے تو کم از کم ان کی پرائیویسی کا خیال ضرور رکھ سکتے ہیں کہ ہمارے کسی جملے، کسی عمل سے کسی دوسرے کی ذاتیات میں دخل اندازی نہ ہو۔

پاکستان کی 'آئرن لیڈی' کہلانے والی منیبہ اپنے اس فیس بک پیغام میں بہت ٹوٹی ہوئی، بہت بکھری ہوئی معلوم ہوئیں، میں یہ سب اس لیے نہیں کہہ رہی کہ میں خود بھی ایک عورت ہوں، میں یہ سب اس لیے کہہ رہی ہوں کہ میں عورت ہونے سے پہلے ایک انسان ہوں۔

منیبہ بھی ایک عورت، ایک بیوی ہونے سے پہلے ایک انسان ہے، ایک ایسی انسان جو اپنی معذوری کے ساتھ لڑ رہی ہے، اس نے خود کو کسی پر بھی بوجھ نہیں بننے دیا۔

لوگ کہتے ہیں، 'وہ ڈرامہ کر رہی ہے'، 'اس کی باتوں میں تضاد ہے'، ٹھیک ہے! دونوں ویڈیوز دیکھنے کے بعد ہر کوئی اس کشمکش کا شکار ہوا کہ سچائی کیا ہے، لیکن منیبہ کا فیس بک پیغام غور سے پڑھنے پر بہت کچھ بتا رہا ہے، انہوں نے بہت شائستہ الفاظ میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ شادی شدہ زندگی میں لوگوں کو (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے کس طرح چہرے پر مسکراہٹ سجائے 'سب اچھا ہے' کی گردان کرنی پڑتی ہے۔

لیکن سب کچھ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا، ہوسکتا ہے وہ منیبہ جو ایک ویڈیو میں اپنے (سابق) شوہر کی تعریف کرتی نظر آئی، اس سب سے تھک گئی ہو اور اس نے سوچا ہو کہ اب بس بہت ہوگیا، جو جیسا ہے، اسے ویسا ہی بیان کیا جائے۔

لیکن یہاں یہ بھی اہم ہے کہ جب آج تک وہ اپنی ذاتی زندگی اور اختلافات کو اس طرح سب کے سامنے نہیں لائی تھیں، تو انہیں اب بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور ایسا کرنے کا نتیجہ ان کے سامنے ہے، کیونکہ بہرحال عزت نفس سب کو پیاری ہے۔

کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا، ہوسکتا ہے بظاہر ایک انتہائی مکمل اور پرفیکٹ دکھنے والی شخصیت ذاتی زندگی میں اتار چڑھاؤ کا شکار ہو، لیکن اپنی ذاتی زندگی کو عوامی کرنا کسی بھی طرح دانشمندی نہیں۔

مجھ سمیت ہر وہ پاکستانی، جو منیبہ کو 'پاکستان کی شناخت' کے طور پر دیکھتا ہے، انہیں بس یہی پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ ذاتی اختلافات کی گرد کو اپنی تخیلقی، عملی اور سماجی زندگی پر نہ پڑنے دیں اور ایک 'حقیقی آئرن لیڈی' بن کر سب کو متاثر کرتی رہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔