’بھول نہیں سکتی میرے بیٹوں کےساتھ کیا ہوا‘

تین برس بعد بھی سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین حکمرانوں کے وعدے وفا ہونے کے انتظار میں ہیں۔


16 دسمبر 2014 کی صبح آرمی پبلک اسکول جانے والے طلبہ اور ان کے والدین کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ان پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔

اس روز بھی طلبہ اور ان کے اساتذہ معمول کی طرح سب ہی بہت خوش تھے۔ 8 سے 14 سال کی عمر کے تمام بچے آڈیٹوریم میں جمع ہورہے تھے۔ آج وہ ہنستے مسکراتے نہایت پرجوش انداز میں ابتدائی طبی امداد کی تربیت حاصل کرنے کی تیاری میں مصروف تھے کہ اچانک 7 نہایت بے رحم اور سفاک دہشت گردوں نے انہیں اپنے نشانے پر لے لیا۔

چاروں طرف سے ان معصوموں پر گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ انسانی شکل میں ان بھیڑیوں نے معصوم بچوں کے سامنے ان کی پرنسپل اور اساتذہ کو شہید کیا، پھر ننھی جانوں کو بھی نہ بخشا۔

اس المناک سانحے کے بعد اسکول کا ماحول بارود کے دھوئیں سے شدید ہولناک ہو گیا تھا۔

چند منٹوں میں ان بزدل قاتلوں کی گولیوں سے معصوم جانیں ضائع ہوگئیں۔

15 منٹ کے بعد فوجی کمانڈوز نے اسکول میں داخل ہو کر دہشت گردوں کا خاتمہ کیا۔ اس کارروائی میں دو افسران سمیت 7 اہلکار زخمی ہوئے۔

تین سال گزر گئے لیکن ان ننھے شہیدوں کی مائیں آج بھی خون کے آنسو رو رہی ہیں۔ ان کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے زخموں پر کسی نے مرہم رکھنے کی خاطرخواہ کوشش نہیں کی، نا ہی ان کے بچوں کے قاتلوں کے سہولت کار اور منصوبہ ساز کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔

ان کے لختِ جگر تو چلے گئے لیکن ان پھولوں کی مائیں زندہ ہیں اور ان کے سینے میں کبھی نہ کم ہونے والا دکھ، تکلیف دہ یادیں اور ہر لمحہ بڑھنے والا غم وغصہ موجود ہے۔

اس المناک سانحے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اس حملے کا بدلہ ضرور لیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ، ’’ دہشت گردوں نے قوم کے نو نہالوں کو نشانہ بناکر ہمارے مستقبل کے سینے میں خنجر گھونپا ہے، ان تمام پھول جیسے شہیدوں کی ماؤں کی آہ و پکار اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے، ہم اپنے معصوم بچوں کے لہو کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، دہشت گردوں کو اس لہو کے ایک ایک قطرے کا حساب دینا ہوگا اور جلد دینا ہوگا ۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’ ایک باپ ہونے کے ناطے میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ چھوٹے چھوٹے تابوت والدین کے کندھوں پر کتنے بھاری تھے، میں دہشت گردوں کو قوم کا فیصلہ سنا رہا ہوں کہ اب تمہارے دن گنے جاچکے ہیں، ہمارے بچوں کو نشانہ بناکر ہمارے مستقبل پر حملہ کرنے والوں کے لیے یہاں کوئی جائے پناہ نہیں، پاکستان کی سرزمین تمہارے لیے تنگ ہوچکی ہے، تم نے ہمارے معصوم بچوں کا لہو بہاکر پاکستانی قوم کو جو درد دیا ہے اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا‘‘۔

وزیراعظم کے یہ الفاظ اس وقت تو حوصلہ بخش تھے لیکن آج یہ کھوکھلے جملوں کے سوا کچھ نہیں۔ یہ زبانی جمع خرچ اور دعویٰ ان ماؤں کے لیے بے معنی اوران کے دکھ کے لیے جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے۔

تین برس بعد بھی سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین حکمرانوں کے وعدے وفا ہونے کے انتظار میں ہیں۔ انہوں نے اپنے سوالوں کے جواب اور انصاف کے حصول کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹایا، تھانوں کے چکر لگائے، عدالتوں میں گئے، اقتدار کے ایوانوں اور فوجی چھاؤنیوں کا بھی رخ کیا۔ کئی بار اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے صحافیوں کے پیچھے بھی بھاگے لیکن ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔

ملیے ان شہیدوں کی ماؤں سے جو ایک تحریک چلارہی ہیں:

یہ ہیں ان کی پُر زور اور غیر حذف شدہ صدائیں!