’ایک سڑک میرے شہید بیٹے کے نام سے منسوب کرنے کا کیا فائدہ؟‘

شہید اسفند خان کی والدہ کا سوال

 شاہانہ اجون، شہید اسفند خان کی والدہ۔

اس ہولناک واقعے کو تین برس بیت گئے لیکن میرے زخم بھرے نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ میرا درد کم نہیں ہوا بلکہ بڑھتا جا رہا ہے، مجھے سب کچھ اسی طرح یاد ہے۔ ان تین سالوں میں ہماری زندگی میں بہت کچھ بدل گیا، ہمارے چہرے، پسند نا پسند، ہماری عادتیں اور روز مرہ کے معمولات سب ہی کچھ۔ اب ہم مشکل سے ہی کہیں باہر نکلتے ہیں اور جہاں بھی جاتے ہیں مجھے میرا بیٹا ہر جگہ نظر آتا ہے، بیٹھا ہوا، کھیلتا ہوا، کھاتے ہوئے، باتیں کرتا اور ہنستا مسکراتا۔

میں اپنے بچوں سے پیار کرتی ہوں، ہر روز جب میں انہیں اسکول جاتے اور واپس آتے دیکھتی ہوں تو یہ سوچتی ہوں کہ یہ وقت کتنا قیمتی ہے جو ہم ایک ساتھ گزارتے ہیں۔ لیکن اسفند ۔۔۔ میں نے اسے بھی تو پال پوس کر بڑا کیا تھا۔

بعض اوقات جب میں آئینہ دیکھتی ہوں تو خود کو پہچان نہیں پاتی، میں اس طرح باتیں نہیں کیا کرتی تھی، ایسی نظر نہیں آتی تھی اور میری سوچ تو ایسی بالکل ہی نہیں تھی۔

14 سالہ شہید اسفند خان جسے 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں شہید کیا گیا۔

اگر آج وہ زندہ ہوتا تو جوان ہوچکا ہوتا، لیکن وہ نہیں ہے۔

میں نے گزشتہ تین برسوں میں آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی چند تقریبات میں شرکت کی ہے۔ اسفند کے کئی کزن اب بھی وہاں پڑھتے ہیں۔ وہ سبز و سفید یونیفارم پہنے قطار میں کھڑے ہوکر اپنی تصویریں بنواتے ہیں۔ ان کی مائیں مسکراتی ہیں، میں سوچتی ہوں کہ کاش میرا بیٹا بھی ان کے درمیان ہوتا، پھر میں اپنا چہرہ پھیر لیتی ہوں، اِدھر اُدھر دیکھنے لگتی ہوں، میں سب کے سامنے رو نہیں سکتی۔

مجھے کسی حد تک صبر تو آگیا ہے لیکن مجھے شدید غصہ ہے۔ میں چاہتی ہوں ہمیں یہ بتایا جائے کہ اس روز کیا ہوا تھا؟ کیوں اسکول کے دروازوں پر صرف ایک گارڈ بلال کے علاوہ کوئی سیکیورٹی موجود نہیں تھی؟ اسکول کی چھت پر عام طور پر ماہر نشانہ باز سپاہی تعینات ہوتے تھے، اس روز وہ کہاں تھے؟

شہید بچوں کے والدین کے بہت زیادہ شور مچانے پر ہمیں ایک تقریب میں مدعو کیا گیا۔ یہ 16 دسمبر سانحے کے 5 یا 6 ماہ بعد کی بات ہے۔ تقریب کے دوران ہمیں مارے جانے والے دہشت گردوں کی ایک ویڈیو دکھائی گئی۔ افسران نے ہمیں بتایا کہ یہ وہ دہشت گرد تھے جنہوں نے ہمارے بچوں کو مارا۔ لیکن بعض والدین کا کہنا تھا کہا کہ وہ پہلے بھی ان دہشت گردوں کی تصویریں دیکھ چکے ہیں اور یہ باچا خان ایئرپورٹ حملے کی تصاویر ہیں۔ یہ باتیں سن کر مجھے شدید صدمہ پہنچا، میں نے سوچا کہ کیا ہمیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے؟

مجھے نہیں معلوم کہ جن افراد کو پھانسیاں دی گئیں وہی اصل مجرم تھے یا نہیں؟ میں کیسے یقین کرسکتی ہوں؟ کوئی ہمیں یہ نہیں بتا رہا کہ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ اور سہولت کار کون تھے۔ میں آج آپ کو ایک بات بتادینا چاہتی ہوں کہ ہمارے بچوں کو ابھی تک انصاف نہیں ملا۔

میں ایک ماں ہوں، مجھے سوال پوچھنے کا حق ہے۔

شہید اسفند خان کی اپنے والد اور والدہ کے ساتھ ایک یاد گار تصویر۔

یہ کیسا ملک ہے جہاں دہشت گرد تو اپنے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں لیکن جو لوگ ہمیں تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں وہ ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ میں چاہتی ہوں کہ حکام اور اعلیٰ عہدے دار اسے تسلیم کریں۔ مجھ سے اور دیگر والدین سے کہیں کہ ’’ہاں چونکہ میں اس کرسی پر بیٹھا ہوں اور آپ کے بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری میری تھی لیکن میں ناکام ہوگیا‘‘۔

کسی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا، ایک پولیس کانسٹیبل بھی مستعفی نہیں ہوا۔

اپنے بیٹے کی شہادت کے تیسرے روز جب میں اسکول گئی تو دیواروں پر گولیوں سے ہونے والے سوراخ تھے اور اس پر لگے خون کے چھینٹوں کا رنگ مزید گہرا ہوگیا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے صاف کیا۔ میں جس حد تک دیواروں کو صاف کرسکتی تھی میں نے کیا۔ میری بیٹی نے مجھے منع کیا، اس نے کہا کہ آپ کے ہاتھ گندے ہورہے ہیں لیکن میں نے اسے بتایا کہ یہ ہمارے معصوم بچوں کا لہو ہے، ہمارے شہیدوں کا لہو۔

لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس سانحے کے تین روز بعد اسکول جانے کی ہمت کرنے اور جواب مانگنے والی میں پہلی ماں تھی۔ مجھے حیرت ان والدین پر ہے جنہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ آواز اٹھائیں ! آپ کا بچہ مارا گیا ہے۔

میں کئی ماؤں سے ملی جنہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹوں کو دو سے زیادہ گولیاں لگیں۔ جب میرا اسفند گھر آیا، اس کے سر میں گولیوں کے تین نشانات تھے۔

ہم سے تحقیقاتی رپورٹ کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس کا بھی کچھ نہیں ہوا۔ میں نے عمران خان سے بھی اس بارے میں کئی بار پوچھا۔ بچوں کے والدین نے بھی مشترکہ طور پر صوبائی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر سے ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس رپورٹ موجود ہے لیکن وہ فی الحال اسے جاری نہیں کرسکتے۔ جب ہم صوبائی حکومت سے مدد مانگتے ہیں تو وہ ہمیں وفاقی حکومت کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ جب وفاقی حکومت کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ وہ فوج کے زیر انتظام چلنے والا اسکول تھا اور ہمیں اس پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔

حال ہی میں ہم نے وزیراعظم کے مشیر امیر مقام سے بھی ملاقات کی جنہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملوائیں گے۔

پشاور میں چڑیا گھر کی جانب جانے والی ایک سڑک کو ’اسفند خان‘ کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے، معلوم نہیں مجھے خوش ہونا چاہیے یا اداس۔ میرا جیتا جاگتا بچہ چلا گیا اور بدلے میں مجھے کیا ملا ایک بے جان سڑک۔ اس کا کیا فائدہ؟



شاہانہ اجون آرمی پبلک اسکول سانحے کے 14 سالہ شہید اسفند خان کی والدہ ہیں ۔ انہوں نے اپنی داستان آفتاب احمد کو بیان کی۔