نیب ریفرنس: اسحاق ڈار کے خلاف مزید گواہوں کے بیان قلمبند

سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار—۔فائل فوٹو/اےا ایف پی

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت میں ہوئی، جہاں استغاثہ کے مزید 4 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔

احتساب عدالت نے آج 5 گواہوں کو طلب کیا تھا، جن میں ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن واصف حسین، ڈپٹی ڈائریکٹر کامرس قمر زمان، برطرف ڈائریکٹر نادرا قابوس عزیز، ڈائریکٹر بجٹ قومی اسمبلی شیر دل خان اور نجی بینک کے فیصل شہزاد شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر نجی بینک کے افسر فیصل شہزاد نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا اور  سابق وزیر خزانہ کی اہلیہ تبسم اسحاق ڈار کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں۔

بعدازاں ڈائریکٹر بجٹ قومی اسمبلی شیر دل خان نے بیان ریکارڈ کروایا اور بتایا کہ اسحاق ڈار این اے 95 لاہور سے 1993 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے 16 دسمبر 1993 کوقومی اسمبلی کی رکنیت کاحلف اٹھایا۔

گواہ شیردل خان نے بتایا کہ رکن قومی اسمبلی بننے والے کو تنخواہ کی ادائیگی شروع ہو جاتی ہے، 1993 میں اسحاق ڈار 14 ہزار روپے ماہوار تنخواہ لیتے تھے۔

گواہ کے مطابق اسحاق ڈار 4 نومبر 1996 تک رکن قومی اسمبلی رہے۔

شیر دل خان نے عدالت کو بتایا، اسحاق ڈار دوسری مرتبہ این اے 97 سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور 15 جنوری 97 کو حلف اٹھایا، جبکہ 5 فروری 1997 کو وہ وزیر بن گئے۔

شیر دل خان کے بعد استغاثہ کے تیسرے گواہ ڈپٹی ڈائریکٹر کامرس قمر زمان نے بیان ریکارڈ کروایا اور بتایا کہ 25 جون 1997 کو اسحاق ڈار بورڈ آف انویسٹمنٹ کے انچارج مقرر ہوئے اور 11جولائی 1997کو انہیں وزارت تجارت کا قلمدان سونپا گیا۔

گواہ کے مطابق 16 اکتوبر 1999کو نواز شریف کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، جس کے بعد اسحاق ڈار سمیت کابینہ کو کام سے روک دیا گیا۔

گواہ قمر زمان کے مطابق 31 ماچ 2008 کو اسحاق ڈار کا بطور وزیر خزانہ، ریونیو اکنامک افیئرز، شماریات کا نوٹیفکیشن جاری ہوا اور 13 ستمبر 2008 کو اسحاق ڈار کا بطور وزیر استعفیٰ قبول کیا گیا۔

استغاثہ کے چوتھے گواہ ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن واصف حسین نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروادیا۔

پانچویں گواہ برطرف نادرا ڈائریکٹر قابوس عزیز وقت کی کمی کے باعث بیان ریکارڈ نہیں کرواسکے، لہذا وہ اگلی سماعت پر بیان قلمبند کرائیں گے۔

سماعت کے دوران اسحاق ڈار کی جانب سے قاضی مصباح کو وکیل کرنے کی درخواست بھی خارج کردی گئی۔

گزشتہ سماعت پر اسحاق ڈار اور ان کے ضامن احمد علی قدوسی کی جائیدادیں قرق کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) سے آج رپورٹ طلب کی گئی تھی، جو پیش نہیں کی گئی، جس پر عدالت نے اگلی سماعت میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔

واضح رہے کہ اسحاق ڈار کے ضامن نے جائیداد قرقی کے احتساب عدالت کے حکم کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔

بعدازاں اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 21 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ اسحاق ڈار کے خلاف استغاثہ نے 28 گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کرائی تھی، جن میں سے 11 گواہ اب تک بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ یہ شہادتیں ضابطہ فوجداری کی شق 512 کے تحت ریکارڈ کی جا رہی ہیں۔

کیس کا پس منظر

سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کے اہل خانہ کے 831 ملین روپے کے اثاثے ہیں جو مختصر مدت میں 91 گنا بڑھے۔

رواں برس 27 ستمبر کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے نیب ریفرنس میں اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی تھی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار 7 مرتبہ احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

تاہم بعدازاں مسلسل غیر حاضری پر احتساب عدالت نے 11 دسمبر کو اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دے دیا تھا۔

مزید خبریں :