پاکستان
Time 04 جنوری ، 2018

امریکا ہمارا یار نہیں، یارمار ہے: خواجہ آصف


وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکا ہمارا یار نہیں بلکہ یار مار ہے اور اگر امریکا نے جارحیت کی کوشش کی تو پوری پاکستانی قوم کی جانب سے متفقہ جواب دیا جائے گا۔

جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ایک عوامی نمائندے، وزیر اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے میرا بیان میری حکومت اور جماعت کا موقف ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ٹرمپ کی ٹوئٹ کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے بھی عوام کی رائے کا اظہار کیا، یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے، اس پر ہر پاکستانی کا جذبہ ایک ہو گا تو سوال نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی پاکستان کی طرف اٹھا کر دیکھ سکے۔

مک ماسٹر کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ نے ایسے ہی صبح سویرے اٹھ کر ٹوئٹ کر دیا وہ غلطی پر ہیں، اگر ہم امریکی نائب صدر مائیک پینس کے افغانستان میں بگرام ایئر بیس پر 21 اگست کی تقریر اور اس کے بعد سے امریکی حکام کے بیانات دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک پورا سلسلسہ چلا آ رہا ہے، اور یہ بیانات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دیے جا رہے ہیں۔

خواجہ آصف نے بتایا کہ سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس نے ایک بیان میں کہا کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ پاکستان کوئی ڈبل گیم کھیل رہا ہو یا دھوکا دے رہا ہو۔

انہوں نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی امور مک ماسٹر نے میرے منہ پر کہا تھا کہ آپ وعدے کرتے ہیں لیکن پورے نہیں کرتے، ہمارا اور آپ کا اعتماد کا لیول بہت کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے مک ماسٹر کے بیان پر کہا کہ آپ کا اور ہمارا اعتماد کا کوئی لیول ہے ہی نہیں کیونکہ آپ نے گزشتہ 25 سالوں کے دوران ہمارے ساتھ کیا ہے وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم تو 1960 سے امریکی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ تعلق نبھا رہے ہیں، سویت یونین ہمارا تو دشمن نہیں تھا، پتہ نہیں اس سے کتنا فائدہ ہوا لیکن ہمیں تو اس سے نقصان ہی ہوتا نظر آیا اور اس کے نقصانات کا آج تک ازالہ کر رہے ہیں۔

’چار سال میں جس طرح جنگ لڑی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘

خواجہ آصف نے کہا کہ ہماری فوج امریکا سے زیادہ ٹیکنالوجی تو نہیں رکھتی لیکن ہم نے چار سال میں جو جنگ لڑی وہ اپنے وسائل سے لڑی، سوات، باجوڑ، خیبر ایجنسی اور وزیرستان سمیت پورے پاکستان میں جس بہاردی کے ساتھ ہم نے جنگ لڑی اس طرح کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بتائے کہ امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی افغانستان میں پرفارم کیوں نہیں کر سکا، افغانستان میں مجھے ان کے مقاصد پر شک ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی بتا سکتا ہے کہ افغانستان میں امریکی اتحادی افواج کی موجودگی میں آج بھی 9 ہزار ٹن افیون کیوں پیدا ہو رہی ہے، 43 فیصد علاقہ کیوں طالبان کے قبضے میں ہے، افغانستان کے تقریباً 9 فیصد علاقے پر داعش کیوں قابض ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے نائن الیون کے واقعے کے بعد تباہی اپنے ذمے لی جبکہ امریکی حکام پاکستان مخالف بیان دے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیوں کی توہین کر رہے ہیں۔

’امریکا نا تو دوست ہے اور نا ہی اتحادی‘

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بطور قوم اور ریاست امریکا کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، امریکا نا تو ہمارا دوست ہے اور نا ہی اتحادی ہے، امریکا ہمارا یار نہیں، یار مار (دغاباز یا دوست نما دشمن) ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستان کے ساتھ اتنے کشیدہ تعلقات کے باوجود بھی بات چیت ہو سکتی ہے تو امریکا کے ساتھ کیوں نہیں ہو سکتی لیکن اتحادی کہنے سے پہلے امریکا کو اتحادی اور دوست کا مطلب اور ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے۔

بھارت کے حوالے سے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ بھارتی فورسز کی جانب سے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے، کیونکہ خطے میں عدم استحکام بھارت کے مفاد میں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت اور امریکا سی پیک کے خلاف ایک محاذ بنا رہے ہیں۔

وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے افغان مہاجرین کی 20 سال تک خدمت کی اس لیے انصارکے کردار کی نفی نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کو باوقار طریقے سے واپس جانا چاہیے، یہ ملبا ہمارے گلی محلوں تک پھیلا ہوا ہے اور دو دہائیوں کا ملبا سمیٹنے میں ہمیں وقت لگے گا۔

’امریکا پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے ثبوت پیش کرے‘

نکی ہیلی کے الزامات کے حوالے سے خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا سپر پاور ہے جو چاند اور مریخ تک بھی پہنچ چکے ہیں، امریکا والے دنیا کے کسی کونے میں پڑی سوئی بھی دیکھ لیتے ہیں تو انہیں حقانی گروپ والے کیوں نظر نہیں آتے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے امریکا کو واضح طور پر کہا ہے کہ اگر آپ کے پاس پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے کوئی ثبوت ہیں تو پیش کریں لیکن انہوں نے آج تک ایک بھی ثبوت نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے علاقوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا ہے اور یہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج امریکا کی جانب سے وہاں ڈرون حملے نہیں ہو رہے، اگر پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہوتیں کہ ڈروں حملے بھی پہلے کی طرح ہو رہے ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی افواج کی موجودگی میں افغانستان سے بندے آ کر یہاں دھماکے کر کے چلے جاتے ہیں، اگر ڈرون حملہ ہوتا ہے تو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس کا متفقہ جواب ضرور دینا چاہیے۔

’امریکا ہمارا  9 ارب ڈالر کا مقروض ہے‘

وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کی خاطر اس قوم کے مفادات کو فروخت کیا، اور حکمران جب قومی مفادات کا سودا کرتے ہیں تو کسی نہ کسی صورت میں انہیں اس کا معاوضہ تو ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا نے ہمارا شمسی ایئر بیس، جیکب آباد کا شہباز ایئر بیس استعمال کیا، ہماری سڑکیں تباہ ہو گئیں، ہماری فضائی حدود استعمال ہوئی لیکن ہم نے آج تک ان سے نہیں پوچھا کہ آخر وہ کیا لے کر جا رہے ہیں لیکن امریکا نے ہمیں دی گئی ایک ایک پائی کا حساب لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے آج بھی کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ہمارے 9 ارب ڈالر دینے ہیں جس کا ہم ان سے باقاعدہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا زیادہ سے زیادہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ہماری امداد روک دے گا لیکن اس سے ہمیں زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اب ہمارا بیرونی قرضوں پر انحصار بہت ہی کم رہ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سفارتی سح پر بالکل بھی اکیلے نہیں ہیں بلکہ ترکی، روس، سعودی عرب، ایران اور چین جیسے قابل اعتماد دوست ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔

ٹرمپ کا پاکستان مخالف ٹوئٹ

خیال رہے کہ سال نو کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں پاکستان مخالف بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران پاکستان کو 33 ارب ڈالر امداد دے کر حماقت کی۔

امریکی صدر کے بیان کے اگلے ہی روز وائٹ ہاؤس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ملنے والی امداد روکنے کا اعلان بھی کردیا۔

پاکستان کا رد عمل

گزشتہ روز  خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایک آمر نے ٹیلی فون کال پر سرنڈر کر کے وطن کو خون و بارود میں نہلایا، ماضی سکھاتا ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں احتیاط لازم ہے۔

امریکی صدر اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر دفاع خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور امریکا کی جانب سے کسی بھی قسم کی غیر معمولی حرکت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی جیو نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر امریکا نے کوئی کارروائی کی تو اس کا جواب عوامی امنگوں کے مطابق دیا جائے گا۔

مزید خبریں :