پاکستان
Time 13 جنوری ، 2018

عدلیہ کا کام قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے ذاتی منشاء پر نہیں : چیف جسٹس پاکستان


چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ انصاف وقت پر اور قانون کے مطابق کرنا ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں وہ انصاف فراہم کرنا ہے جو قانون کے مطابق ہو ذاتی منشاء پر نہیں۔

کراچی میں تیسری سندھ جوڈیشل کانفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ لوگوں کی شکایت ہے کہ انہیں انصاف وقت پر میسر نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ ایک سول جج اور سپریم کورٹ کے جج میں کوئی فرق نہیں ہوتا، بدقسمتی سےجوڈیشل فورم تنقید کی زد میں ہے جس کی ایک وجہ تاخیر ہے۔

مقدمات میں تاخیر کی ذمے دار عدلیہ نہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جج کے پاس روزانہ غالباً 150 مقدمات آتے ہیں، ہم سے بہت سے قوانین سے متعلق ریفارمز کا کہا جاتا ہے، مقدمات میں تاخیر کی ذمے دار عدلیہ نہیں، کیا انصاف فراہم کرنے کا ادارہ حق نہیں رکھتا کہ اسے بھی مطلوبہ چیزیں فراہم کی جائیں جس سے سہولت پیدا ہو۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ایک جج کے کام کرنے کے اوقات صرف 6 گھنٹے ہیں، جج کے پاس ایک کیس کے لیے صرف چند منٹ ہوتے ہیں اور اتنا بوجھ ڈال کر تاخیر کی ذمے داری صرف جج پرنہیں ڈالی جاسکتی۔

قانون مجھے نہیں بنانا بلکہ اس کی تشریح کرنی ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ’’قانون مجھے نہیں بنانا کسی اور کو بنانا ہے مجھے قانون کی تشریح کرنی ہے، قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے‘‘۔

جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ ’’قانون میں اصلاحات کس نےلانی ہیں؟ زیرالتواء کیسز کی تعداد زیادہ ہے، ہر کیس کا2 منٹ میں فیصلہ ہو تو بھی تعداد پوری نہیں ہوگی‘‘۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ’’میرے جج کی دیانت داری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، ہرایک کو انصاف کیلئے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا،عدالتوں پر دباؤ ہے لیکن پھر بھی میں تاخیر کی ذمے داری لیتا ہوں‘‘۔

ہائی کورٹ کے جج 90 روز میں کیس کا فیصلہ سنائیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان نے تقریب سے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کے جج 90 روز میں کیس کا فیصلہ سنائیں، یہ کیا بات ہوئی کہ تین مہینے فیصلہ محفوظ رکھنے کے بعد معاملہ دوبارہ سماعت پر ڈال دیں؟

انہوں نے کہا کہ ہم افسران کو بلا بھی لیتے ہیں اورڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں، ہرایک کو انصاف کے لیے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، ہمیں اپنی ذمےداری اٹھانی ہوگی اور یہ ہی حتمی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور قوانین بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے پارلیمنٹ قوانین میں ترمیم کردے اس کے بعد اگر ججز کوتاہی کریں تو ذمہ دار میں ہوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے ہم مقننہ نہیں اور قانون سازی نہیں کرسکتے جب کہ جسے قوانین میں ترمیم کرنی ہے وہ اس پرتوجہ دے۔

انہوں نے کہا کہ قوانین میں ترمیم کے لیے ارکان پارلیمنٹ سے بھی بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اگر کسی رکن پارلیمنٹ سے ملیں تو اس پر چہ مگوئیاں نہیں ہونی چاہیئے،بد اعمتادی کی فضاء ختم ہونی چاہیئے۔

آخر میں چیف جسٹس نے کہا کہ بارز کو چاہیئے کہ وہ ہڑتالوں کا کلچر ختم کرے وکلاء سینئرز اور ججوں کا احترام کریں کیوں کہ ہمیں اپنے گلشن کی خود حفاظت کرنی ہے۔

سب سے اچھا کام پنجاب میں نظر آیا ہے، چیف جسٹس پاکستان

قبل ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں عدالتی نظام میں اصلاحات سے متعلق اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جتنے بھی زیر التوا کیسز ہیں ان کا بخوبی انداز ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک کوشش کی جاسکتی ہے کہ اسی قانونی دائرے اور ان ہی ججز کی تعداد کی ساتھ ہر جگہ قانون کے مطابق جلد کام کریں۔

جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ انصاف میں تاخیر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، لوگوں کو ملک میں سستا انصاف ملنا چاہیے، لوگوں کو شکایت ہےکہ جلد انصاف نہیں ملتا جب کہ دنیا بھر میں شکایات رہتی ہیں کہ مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مجھے سب سے اچھا کام پنجاب میں نظر آیا ہے، وہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کوبروئے کار لایا گیا ہے، پنجاب میں ماڈل کورٹس بنائی گئی ہیں۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عدالت میں جانے کے ڈر سے بہت سے لوگ مسئلہ خود حل کرتے ہیں لیکن یہاں معاملہ عدالت لے جانے پر لوگ خوش ہوتے ہیں کہ عدالت میں دیکھ لوں گا۔

مقدمات تیزی سے نمٹانے کا براہ راست فائدہ سائلین کو ہوگا، جسٹس ثاقب نثار

معزز چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس جب سپریم کورٹ میں آتا ہے توپتا چلتا ہے وہ بے گناہ ہیں، جیل میں ایک سال گزارنا بھی مشکل ہے، جنہوں نے کئی سال جیلوں میں گزارے ان کا کیا کریں۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس کا مقصد عدالتی اصلاحات کی مہم کو تیز کرنا ہے، مقدمات تیزی سے نمٹانے کا براہ راست فائدہ سائلین کو ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ کتنے کیسز زیر التوا ہیں، کیا ایک جج کے لیے ممکن ہےکہ اتنے قلیل وقت میں کیس کا فیصلہ سناسکے؟ ٹرائل کے لیے ججز کے پاس 150 سے 145 کیسز زیرسماعت ہیں، 2 منٹ سے زائد وقت ایک کیس میں لگتا ہے، کیا ایک جج صاحب کے پاس اتنا وقت ہے؟

جمہوریت میں اہم ہے ہم کسی کام میں دخل اندازی نہ کریں، چیف جسٹس

ان کا کہنا تھا کہ کیس میں تاخیر کا الزام آخر کار عدلیہ پرہی آتا ہے، جج ان مقدمات کو نمٹا نہیں سکا تو کیا قصور وار ہے، کیا ڈسٹرکٹ اورسول جج کام نہیں کررہے؟

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جمہوریت میں اہم ہے ہم کسی کام میں دخل اندازی نہ کریں، کیا قوانین کوپارلیمنٹ سے اپڈیٹ کیا گیا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں؟ پنجاب کے علاوہ پاکستان میں کہیں بھی معیاری فرانزک لیب نظرنہیں آئی، کروڑوں روپے کی پراپرٹی زبانی طور پر ٹرانسفر کردی جاتی ہے۔

فیصلوں پر تنقید رائج عالمی معیارات کے مطابق ہونی چاہیے، جسٹس ثاقب نثار

جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جج قانون کے مطابق فیصلہ کریں، انہیں اپنی منشاء کے مطابق فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کے مقدمات کئی سال تک چلتے ہیں، جس کوقوانین میں ترمیم کرنی ہے وہ اس پرتوجہ دے جب کہ تمام ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان درخواست کرتا ہوں کہ اپنی جوڈیشل اکیڈمیز کو جدید کریں، ججز کی ٹریننگ تعلیم کو مثبت اور بہتر بنایا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ فیصلوں پر تنقید رائج عالمی معیارات کے مطابق ہونی چاہیے،  بش الگور کیس کے فیصلے کو امریکی عدالتی تاریخ کا بدترین فیصلہ کہا جاتا ہے مگر کیس ہارنے والے رچرڈ الگور نے صرف یہ کہا کہ یہ برا فیصلہ ہے مگر چوںکہ امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے اس لیے کچھ نہیں کہوں گا۔

مزید خبریں :