نیب حسین نواز کے برطانیہ میں بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کرنے میں ناکام

لندن: قومی احتساب بیورو (نیب) سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کے برطانیہ میں بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔

نیب گزشتہ کئی ماہ سے برطانوی وزارت داخلہ کے انٹرنیشنل کرمنیلٹی یونٹ سے میوچوئل لیگل اسسٹینس (ایم ایل اے) کے تحت حسین نواز کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے رابطے کررہا ہے لیکن اس سلسلے میں اسے اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

برطانیہ اور پاکستانی حکام کے درمیان ہونے والے باضابطہ رابطوں کے جائزے سے اس بات کا واضح اندازہ ہوتا ہے کہ نیب نواز شریف کے بڑے بیٹے حسین نواز شریف کے خلاف برطانوی حکام سے کیا چاہتا ہے۔

جون 2017 سے اب تک نیب برطانوی سینٹرل اتھارٹی (یو کے سی اے) اور انٹرنیشنل کرمنیلٹی یونٹ کو کم سے کم 7 درخواستیں بھیج چکا ہے جن میں درخواست کی گئی ہے کہ حسین نواز کے برطانیہ میں بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات پاکستانی حکام کو دی جائیں تاکہ ان معلومات کو احتساب عدالت میں جاری کیسز میں استعمال کیا جاسکے۔

لیکن برطانوی اور پاکستانی حکام کے لیے مسئلہ اس وقت پیدا ہوگیا جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ حسین نواز شریف کا برطانیہ کے کسی بینک یا ہاؤسنگ سوسائٹی میں کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے۔

یو کے سی اے کی انٹرنیشنل کرمنیلٹی یونٹ نے 17 نومبر 2017 کو تقریباً 8 خطوط پاکستان حکام کو بھیجے تھے جن میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ حسین نواز شریف کے معاملے میں میوچوئل لیگل اسسٹینس کو منظور کرلیا جائے گا۔

اس کے بعد برطانوی وزارت داخلہ نے نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کو ہدایات دیں کہ وہ ڈوئچے بینک، یو بی ایس، لائیڈز ٹی ایس بی بینک اور ہیلی فیکس میں حسین نواز شریف کے بینک اکاؤنٹس کو ڈھونڈنے کا کام شروع کرے۔

مصدقہ ذرائع کے مطابق اب این سی اے نے وزارت داخلہ کو ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ حسین نواز شریف کا مذکورہ کسی بھی بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں اور نہ ہی ماضی میں کوئی اکاؤنٹ تھا۔

نیب کی جانب سے برطانوی وزارت داخلہ کو بھیجے جانے والے خطوط اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان برطانیہ کو تقریباً ایک درجن درخواستیں ارسال کی ہیں جن کا عنوان یہ ہے: ’’درخواست برائے قانونی معاونت بحوالہ حسین نواز شریف‘‘۔

ان درخواستوں میں برطانیہ سے ڈوئچے بینک، لائیڈز بینک، یو بی ایس اور ہیلی فیکس میں حسین نواز کے کسی بھی اکاؤنٹ کی تفصیلات اور ان جائیدادوں اور اثاثوں کی تفصیلات مانگی گئیں جن کا تعلق حسین نواز شریف سے بنتا ہو۔

برطانوی وزارت داخلہ میں اس معاملے پر کام کرنے والے عہدے دار نے پاکستان کی تمام درخواستوں کے جواب میں لکھا کہ حسین نواز کے معاملے میں پاکستان کی معاونت کی جائے گی۔

عہدے دار نے نیب کو لکھا کہ : ’’آپ کی جانب سے معاونت کے لیے کی گئی درخواست پر برطانوی سینٹر اتھارٹی نے غور کیا اور اسے منظور کرلیا گیا جبکہ معاملہ مزید کارروائی کے لیے نیشنل کرائم ایجنسی کے پاس بھیج دیا گیا ہے‘‘۔

نومبر کے تیسرے ہفتے میں برطانوی وزارت داخلہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں نیب سے کہا کہ اگر وہ اس معاملے میں مزید معاونت نہیں چاہتا تو وزارت داخلہ کو مطلع کرے تاکہ یو کے سی اے فائل بند کرکے نیشنل کرائم ایجنسی کو اس کی تصدیق کرسکے۔

اس پر نیب نے جواب دیا کہ وہ برطانیہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی معاونت کو سرائے گا اور قانونی معاونت حاصل کرتا رہے گا۔

نیب کی جانب سے یو کے سی اے کو ایک خط 6 جون 2017 کو بھیجا گیا تھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ حسین نواز کے خلاف ایک ’’ضمنی مقدمے‘‘ میں معاونت فراہم کی جائے تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ یہ کیس کیا ہے۔

بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات کے حصول کے لیے میوچوئل لیگل اسسٹینس پہلے 27 مئی 2017، پھر 6 جون، 7 جون اور 6 جولائی کو مانگی گئی۔

یوکے سی اے نے اب پاکستان کو بتادیا ہے کہ اس کی تحقیقات اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ حسین نواز ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت ایک آفشور کمپنی کے ذریعے رکھتے ہیں لیکن برطانیہ میں ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ موجود نہیں ہے۔

نیب کو مطلع کردیا گیا ہے کہ حسین نواز نے برطانیہ میں رہ کر کبھی کوئی جرم نہیں کیا اور نہ ہی کسی غلط کام میں ملوث رہے لہٰذا برطانوی حکام کی ان کی جانب کبھی کوئی خاص توجہ نہیں رہی۔

این سی اے، میٹروپولیٹن پولیس اور کراؤن پراسیکیوشن سروس کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برطانیہ میں حسین نواز کے خلاف کبھی کوئی فوجی یا دیوانی مقدمہ قائم نہیں ہوا۔

حسین نواز کی اہلیہ اور بچے برطانوی شہری ہیں جبکہ خود حسین نواز پاکستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ سینیئر صحافی انصار عباسی قبل ازیں اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ برطانوی وزارت داخلہ حسین نواز کے معاملے پر تعاون کرنے کے لیے تیار ہے تاہم ان کے چھوٹے بھائی حسین نواز کے بارے میں کوئی بھی معلومات فراہم کرنے سے انکار کرچکی ہے کیوں کہ وہ گزشتہ 25 سال سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور اب برطانوی شہری بھی ہیں۔

ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برطانوی وزارت داخلہ، این سی اے اور کراؤن پراسیکیوشن سروس نے پاکستان میں جاری کیسز کے حوالے سے اب تک حسن یا حسین نواز سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے اور موقف اپنایا ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی مذکورہ اداروں کے لیے باعث اضطراب نہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں یہ خبریں منظر عام پر آئی تھیں کہ ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی ظاہر شاہ کی سربراہی میں نیب کی تین رکنی ٹیم برطانوی حکام سے مدد حاصل کرنے کے لیے لندن پہنچی ہے۔

اس سے قبل بھی نیب کی دو ٹیمیں لندن کا دورہ کرچکی ہیں اور وزارت داخلہ کے حکام سے ملاقاتیں کرچکی ہیں تاہم اب تک کوئی ایسا ثبوت سامنے نہیں آسکا ہے جس کی بنیاد پر کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔

اس حوالے سے پاکستانی ہائی کمیشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ انہیں نیب ٹیم کی لندن میں موجودگی کا کوئی علم نہیں ہے۔

مزید خبریں :