بلاگ
Time 02 جون ، 2018

تتلیاں روٹھ جائیں گی

— فائل فوٹو

کیا آپ کراچی میں رہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا آپ نے کبھی تتلی دیکھی ہے؟ رنگ برنگے پروں والی، پھولوں اور پودوں پر منڈلاتی ہوئی؟ اپنے ہاتھ پر چاشنی لگا کر کبھی آپ نے تتلی کو لبھایا ہے؟ یا پھر پودوں میں بیٹھ کر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ہو اور تتلی اپنے پر ہلاتی ہوئی آپ کے ہاتھ پر چاشنی چاٹنے بیٹھی ہو؟

 بڑا فلمی یا خوابناک قسم کا خیال ہے لیکن یقین جانیں آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک یا پھر اس کے قریب قریب ایسا عین ممکن تھا۔ ہم بچپن سے تتلیاں کھلاتے آئے ہیں ان کے رنگ انگلیوں پر لگ جاتے تو ایک دوسرے کو دکھاتے لیکن مجھے نہیں یاد کہ پچھلے پندرہ سال میں پیدا ہونے والی نسل نے تتلی دیکھی ہو، یا اگر دیکھی ہو تو اس سے مانوس ہوکر کھیلا ہو۔

 مجھے نہیں معلوم کہ تتلیاں کراچی میں مکمل ناپید ہوچکی ہیں یا پھر کوئی اور وجہ ہے لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ قدرت کا یہ شاہکار اس شہر سے ناراض ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کئی دفعہ صبح اٹھ کر اپنے لان کی اوس سے اٹی گھاس پر پاؤں دھرتا تو پتا نہیں کہاں سے تتلیوں کا ایک ٹولہ میرے ارد گرد منڈلانے لگتا۔

 اپنے ہاتھ میں نے چینی والے پانی میں گیلے کرکے پہلے ہی بھگوئے ہوتے۔ میں ہتھیلی آگے کرتا اور تین چار فوراً میرے ہاتھ پر آکر بیٹھ جاتیں جب کہ باقی بڑے صبر سے میرے ارد گرد منڈلا کر اپنی باری کا انتظار کرتیں۔

دوسری طرف میرے پاس رات کی بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے، یا پکے ہوئے چاول ہوتے، جو میں آم کے درخت کے نیچے ڈال دیتا اور پھر درخت پر بیٹھے ہُدہُد کے اترنے کا انتظار کرتا۔ دو یا تین ہُدہُد پتا نہیں روز کہاں سے آکر میرا انتظار کرتے تھے۔ قریب جانے پر اُڑ جاتے، لیکن چاولوں پر خوب ہاتھ صاف کرتے۔

 اچھل اچھل کر ایک دوسرے کو چونچیں مارتے زیادہ رومانٹک موڈ میں ہوتے تو، ایک دوسرے کی گردن میں گردن ڈال کر کلغیاں رگڑتے لیکن کیا آپ نے کبھی ہُدہُد دیکھا ہے؟

ان تتلیوں سے کھیلنا، ہُدہُد کی پہچان، پودوں کو پانی دینا، پھولوں کو تازہ رکھنا، کیاری میں گوڈی کرنا، اوس پر ننگے پاؤں چلنا مجھے میرے دادا نے سکھایا تھا۔

 وہ کہتے تھے کہ یہ سب قدرت سے محبت کے اظہار کے طریقے ہیں۔میری سمجھ میں کبھی بات آتی، کبھی نہ آتی لیکن یہ ضرور تھا کہ مجھے ان سب چیزوں کی عادت ہوگئی تھی اور صبح آنکھ کھلتے ہی لان میں پودوں اور تتلیوں کے پاس پہنچ جاتا۔

میرے دادا نے مجھے درختوں سے لپٹنا بھی سکھایا درختوں سے لپٹنے میں بھی ایک رمز ہے۔ جتنا پرانا، بوڑھا درخت ہوگا اس کو “جپھا “مارنے میں بالکل ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کسی بزرگ کے سینے سے لگنے میں محسوس ہوتا ہے۔

  اس کی چھال بے شک کھردری جھریوں والی ہوگی لیکن چھاؤں بہت ٹھنڈی اور شفیق ہوتی ہے جس طرح کسی بزرگ کا تجربہ اور گیان بانٹنے کے لیے اس کے قریب جانا ضروری ہے ویسے ہی کسی درخت کو جاننے کے لیے بھی اس کے قریب ہونا ضروری ہے۔

 درخت پر موجود کیڑوں کی آمد و رفت سے پتا چلتا ہے کہ پھل آنے والا ہے، یا اس کو کھاد کی ضرورت ہے نیچے سے سر اٹھا کر دیکھیں تو شاخوں کی ساخت سے اس کی گروتھ کا اندازہ ہوتا ہے۔

 گھر کا شجر بیمار ہو یا موج مستی میں ہو تو بھی اپنی مہکار سے اپنی بیماری کی خبر دیتا ہے۔یہ سائنس نہیں لیکن سائنس سے زیادہ آزمودہ تجربہ ہےکیوں کہ اس میں لاجک سے زیادہ محبت کام آتی ہے۔ 

 کیا آپ نے کبھی کسی بزرگ سے لپٹ کر اس کا حال جانا ہے؟ اگر نہیں تو موقع ملنے پر یہ محبت بھرا تجربہ ضرور کیجیے گا ورنہ تتلیاں روٹھ جائیں گی آپ کے آنگن میں ہُدہُد ناچنا چھوڑ دیں گے۔ آپ کو صرف انہی رنگوں کی پہچان ہوگی جو ٹی وی پر چلتے ہیں وہی خوشبوئیں مانوس لگیں گی، جو دکانوں پر بکتی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔