بلاگ
Time 12 جولائی ، 2018

میرا ووٹ کہاں ہے؟

مجھے معلوم ہی نہیں کہ میرا پولنگ اسٹیشن کہاں ہے؟

الیکشن 2018 تقریباً سر پر ہیں اور سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں سرگرم ہیں، انتخابی امیدوار اپنے ووٹ پکے کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) انتخابات سے جڑے مسائل حل کرنے میں لگا ہوا ہے لیکن جناب ذرا یہاں بھی دھیان دیں، میرا بھی ایک مسئلہ ہے۔ اگرچہ آپ کے لیے چھوٹا ہے لیکن میرے لیے یہ کافی بڑا مسئلہ ہے۔

میں پنجاب کے دل لاہور کے حلقے این اے 133 سے تعلق رکھتی ہوں، جس میں لیاقت آباد، ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن، پنڈی راجپوتن، اسماعیل نگر، کوٹ لکھپت، چنگی امر سدھو، ٹیہارٹا پند، باگڑیاں، گرین ٹاؤن، ٹاؤن شپ، مریم کالونی، ستارہ کالونی اور فرید کالونی کے علاقے آتے ہیں۔ اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے پرویز ملک، پیپلز پارٹی کے چوہدری اسلم گل اور پی ٹی آئی کے اعجاز چوہدری میدان میں ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کے مطابق پنجاب کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5,398,623 ہے جن میں سے ایک میں بھی ہوں۔ صوبے بھر میں کُل ملا کے 3,887 پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھے معلوم ہی نہیں کہ میرا پولنگ اسٹیشن کہاں ہے؟

نادرا کو میسج کرنے پر پتا چلا کہ میرا ووٹ شوکت کالونی میں رجسٹرڈ ہے، لیکن اگر گوگل میپ کی مدد لی جائے تو اس کے مطابق شوکت کالونی بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں واقع ہے، مطلب اب پنجاب والوں کو بلوچستان جا کر اپنا ووٹ ڈالنا ہوگا؟

ایک نوجوان اور ایک طالبعلم ہونے کی حیثیت سے اس مرتبہ الیکشن میرے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ مجھے پہلی مرتبہ ووٹ کے ذریعے عوامی نمائندے کے انتخاب کا موقع ملے گا، مجھے بخوبی احساس ہے کہ میرا ووٹ ملک کے لیے کتنا اہم ہے۔ یہ میرا بنیادی حق ہے کہ میں اپنے اگلے حکمران کا انتخاب کر سکوں، جس کی سر پرستی میں ہمارے لیے تعلیمی پالیسیاں تشکیل دی جائیں گی۔

اس لیے میں نے سوچا کہ کیوں نہ کسی بڑے سے مشورہ لیا جائے، لہذا میں اپنے والد صاحب کے پاس گئی اور اپنی ساری روداد سنائی لیکن وہاں سے بھی جھاڑ پڑ گئی کیونکہ جب نادرا والے رجسٹرڈ ووٹرز کی تصدیق کرنے آئے تھے، تب میں گھر پر موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے میرے ووٹ کی دوبارہ تصدیق نہ ہوسکی اور وہ کہیں کا کہیں چلا گیا۔

بقول والد صاحب، اس مسئلے کا ایک حل ہے لیکن اس کے لیے اب وقت بہت ہی کم بچا ہے اور طریقہ تھوڑا لمبا چوڑا ہے۔ کرنا کچھ یوں ہوگا کہ فارم نمبر 15 کو شناختی کارڈ اور دیگر کاغذات (یوٹیلیٹی بلز) کے ہمراہ ای سی پی کے ڈسپلے سینٹر پر جمع کرانا ہوگا، جس کے بعد ای سی پی آپ کے کیس کی سماعت کے لیے ایک تاریخ مقرر کرے گی اور پھر آپ کے کیس کی سنوائی ہوگی۔ اب آپ ہی بتائیں جہاں الیکشن میں 15 سے بھی کم دن باقی ہیں اور ای سی پی کے پاس پولنگ اسٹیشنز کے قیام سے لے کر ان کی چیکنگ کرنے جیسے ہزاروں کام پڑے ہیں، وہاں ان سب جھمیلوں میں میرا ووٹ کون ڈھونڈے گا؟

اپنی رائے کا اظہار کرنا میرا بنیادی حق ہے۔ میں بتانا چاہتی ہوں کہ میرے حلقے میں کس کو آنا چاہیے، جو تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بناسکے لیکن تھوڑی سی غفلت اور کسی کی ذرا سی نااہلی کی وجہ سے میرا ووٹ ضائع ہو جائے گا، اب اگلے الیکشن کے لیے 5 سال تک کون انتظار کرے، غالب نے اسی موقع کے لیے تو کہا ہے ؎ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔۔۔!


حافظہ فرغانہ یونیورسٹی آف مینجمینٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی طالبہ ہیں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔