بلاگ
Time 13 جولائی ، 2018

کراچی کے غم میں ہلکان ہونے والوں! وعدہ وفا اور امید صبح تو دو ۔۔۔

سوال یہ ہے کہ ووٹ دوں تو آخر کس کو دوں؟

چند روز قبل گمشدہ شناختی کارڈ کی جگہ نیا شناختی کارڈ بننے کو دیا کیونکہ انتخابات ہونے والے ہیں، جس میں ووٹ تو ضرور ہی دینا ہے اور اپنے آپ کو باشعور شہری ثابت کرنا مقصود ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ووٹ دوں تو آخر کس کو دوں؟ یہ سوال صرف میرے ہی ذہن میں نہیں کلبلا رہا بلکہ کراچی کی 80 فیصد آبادی اسی سوچ میں غلطاں ہے۔

'کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں' کے مصداق اب نہ ایم کیو ایم ہے اور نہ ہی شہرِ قائد میں 'بھائی لوگوں' کا راج، جو کبھی کھمبے کو بھی کھڑا کردیتے تھے تو جیت اسی کے حصے میں ہی آنی تھی۔ تین عشروں تک اونچی اڑان والی پتنگ کو اب کی بار ایسا پیچہ لگا کہ اب وہ کٹی پتنگ کی طرح اِدھر سے اُدھر ڈول رہی ہے۔

ایم کیو ایم کا ہر دھڑا،گلی کے آوارہ لڑکوں کی طرح پتنگ لوٹنے کی کوششیں کرتا رہا، لیکن جب ہاتھ کچھ نہ آیا تو لڑاکا عورتوں کی طرح ایک دوسرے پر وہ وہ الزامات لگائے گئے کہ پتنگ تار تار ہوگئی اور سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر کچھ ایسے پھوٹی کہ یقیناً لوگوں نے انہیں ووٹ نہ دینے کا تہیہ کرلیا ہوگا۔

اب دوسرا آپشن کون سا ہے؟ پی ٹی آئی؟خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے سوچا کہ چلو بھئی اس بار نئے لوگوں کو آزماتے ہیں، لیکن بھلا ہو خان صاحب کا کہ انہوں نے گزشتہ چند ماہ میں ایسے ایسے 'یو ٹرن' لیے کہ ہم اپنی سوچ پر دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگے، بہرحال ہم کہہ سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا کچھ نہ کچھ ووٹ بینک کراچی میں موجود ہے۔

جب جب خان صاحب نے یو ٹرن لیے ہم نے اپنے عزیز بھانجے عرف 'خان کا شیدائی' کو شرمندہ کرنے کے لیے پیغام بھیجا کہ اب کیا کہتے ہو؟ اس کا جواب کھٹ سے آتا کہ 'ہاں بات تو غلط ہے لیکن ووٹ پی ٹی آئی کا ہی ہے'۔۔۔ پوچھا: ارے بھئی وہ کیوں؟؟ جواب بڑا ہی اعلیٰ ملاکہ 'ہم پی ٹی آئی کے حق میں نہیں ہیں، ہم دراصل ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف ہیں'۔

میرا سوال اب بھی جوں کا توں ہے کہ آخر کس کو ووٹ دوں؟ پیپلز پارٹی؟ نہ بھائی ناں! گزشتہ دس برسوں میں کراچی کو کھنڈر اور کچرے کا شہر بنانے میں پی پی پی والے یقیناً پیش پیش رہے ہیں۔کراچی کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والے بلاول نے لیاقت آباد میں جلسہ تو کرلیا لیکن انہیں سڑکوں پر پڑے وہ کھڈے نظر نہ آئے جو کمزور دل افراد کو دل کا دورہ پڑوا دیں، کمر کی ہڈیاں ہلا دیں۔ ویسے آپس کی بات ہے بلاول کا بھی اس میں کوئی قصور نہیں کیونکہ نہ تو وہ بیچارہ چنگچی رکشہ میں سفر کر رہا تھا اور نہ ہی ڈبلیو گیارہ کے مزے لوٹ رہا تھا جو اسے سڑک کے کھڈوں کی گہرائی اور چوڑائی کا اندازہ ہوتا۔

اب آخر بچا کون؟ ایم ایم اے یا جماعت اسلامی؟لے دے کے اب جماعتی بننے کا سودا سمایا۔ بس فیصلہ ہوگیا کہ میرا ووٹ جماعت کو ہی جائے گا کیونکہ یہی وہ واحد جماعت تھی جس نے بجلی کمپنی کے ہاتھوں یرغمال کراچی والوں کے حق میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کیا تھا، لیکن ابھی یہ فیصلہ کیے دو چار روز ہی گزرے تھے کہ مشعال خان کا چہرہ نظروں میں گھومنے لگا، جس نے جھنجھوڑتے ہوئے سوال کیا کہ کیا تم ان لوگوں کو ووٹ دو گی جنہوں نے میرے قاتلوں کی سزا کے خلاف احتجاج کیا تھا؟ نہیں، یقیناً میں ایسا نہیں کرسکتی!

فخریہ طور پر کراچی والی ہونے کے باوجود کل سے میں پنجاب پر رشک کر رہی ہوں۔ اس کی وجہ خادم اعلیٰ کی کارکردگی نہیں، کیونکہ وہ تو صرف لاہور تک ہی محدود ہے، بلکہ مجھے تو ایک سوشل میڈیا پوسٹ نے حسد میں مبتلا کر رکھا ہے۔

پوسٹ کے مطابق قصور کے حلقے این اے 138 سے علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کھڑے ہو رہے ہیں، جن کی تعلیمی قابلیت دیکھ کر منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ممتاز تعلیمی اداروں سے کمپیوٹر سائنس اور سائیکالوجی میں ایم ایس سی کرنے کے علاوہ وہ ایم اے انگلش، ایم بی اے اور ایم اے صحافت سمیت پوری 9 عدد ماسٹرز ڈگریوں کے علاوہ ایم فل ماس کمیونیکشن بھی کر چکے ہیں۔ یوں اگر کہا جائے تو وہ پاکستان کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ امیدوار کا اعزاز رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق چاہے کسی بھی جماعت سے ہو لیکن اگر ایسا قابل انسان میرے حلقے سے کھڑا ہوتا تو میں آنکھیں بند کرکے اسے اپنا ووٹ دے دیتی، یعنی میرا ووٹ تعلیم کا ہے۔

اب تو محض یہی دہائی دے سکتی ہوں کہ کراچی کے غم میں ہلکان ہونے والوں کوئی قابل امیدوار کھڑا کردو، کوئی ڈیم بنانے کا وعدہ کرلو، چلو یہ بھی نہیں تو سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اردو کو سرکاری زبان بنانے کا وعدہ ہی کرلو، کوئی ایک وعدہ تو کرو، امیدِ صبح تو دو، میرا یہ ووٹ تمہارا ہوا۔۔۔!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔