LIVE

جنوبی پنجاب بغاوت اور موجودہ 'نظریاتی' لیگی ایم این ایز کا تعارف

ماجد صدیق نظامی
April 19, 2018
 

رواں برس 9 اپریل کو جنوبی پنجاب کے رکن قومی اسمبلی خسرو بختیار نے طاہر اقبال چوہدری، رانا قاسم نون، طاہر بشیر چیمہ اور باسط سلطان بخاری کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنانے کا اعلان کیا تھا—۔جیو نیوز اسکرین گریب

پاکستانی سیاست کے بدلتے حالات اور پیچیدہ اتار چڑھاؤ میں جنوبی پنجاب کے نبض شناس سیاسی رہنماؤں کی بصیرت کو داد دینی چاہیے کیونکہ وہ ہر الیکشن سے پہلے بخوبی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ مرکز میں حکومت کون بنائے گا، اسی صلاحیت کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے منتخب نمائندے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔

2013 کے الیکشن کے بعد یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے 35 ارکان اسمبلی تھے، 2008 میں یہاں سے پیپلز پارٹی کے 22 اور ق لیگ کے 11 ایم این اے تھے اور 2002 میں (ق) لیگ اور نیشنل الائنس کے 25 ایم این اے کامیاب ہوئے۔ گویا ہر الیکشن سے پہلے سیاسی رہنما بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی نئی جماعت کا دوبارہ سے انتخاب کرتے ہیں اور الیکشن کے بعد اقتدار کے مزے لیتے ہیں۔

شاید اسی لیے حال ہی میں جنوبی پنجاب کے 5 اراکین قومی اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے صوبہ جنوبی پنجاب کا مطالبہ کر دیا۔ ان میں مخدوم خسرو بختیار، طاہر اقبال چوہدری، رانا قاسم نون، طاہر بشیر چیمہ اور باسط سلطان بخاری شامل ہیں۔ جن کا دعویٰ ہے کہ آئندہ دنوں میں اور بھی اراکین ان کا حصہ بنیں گے۔ اس وقت جنوبی پنجاب سے اراکین قومی اسمبلی کی تعدا د 46 ہے، جن میں 35 کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا، پانچ ارکان کے اعلان بغاوت اور رضا حیات ہراج کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد یہ تعداد 29 ہے، باقی اراکین میں سے 3 کا تعلق پیپلز پارٹی، 2 آزاد ارکان جبکہ ق لیگ، ضیاء لیگ اور تحریک انصاف کا ایک ایک رکن قومی اسمبلی ہے۔

جنوبی پنجاب میں اراکین کی بغاوت کے بعد اس وقت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نظر آنے والے 29 ایم این ایز کی سیاست اور ماضی کا جائزہ لیا جائے تو ان کی نظریاتی وابستگی کے حوالے سے دلچسپ اور حیران کن حقائق سامنے آتے ہیں۔

جنوبی پنجاب کے اہم ضلع ملتان پر نظر ڈالی جائے تو یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر زراعت سکندر حیات بوسن نے 2008 اور 2002 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔ ایک اور وفاقی وزیر جاوید علی شاہ نے 2008کے الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور ان کے کزن مجاہد علی شاہ نے ق لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا لیکن ہار گئے۔ جاوید علی شاہ نے 2002 میں (ن) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔

ضلع لودھراں سے وزیر مملکت عبدالرحمن کانجو دو مرتبہ (ق) لیگ کی جانب سے ضلعی ناظم رہے اور اب 2013 میں آزاد حیثیت میں جیت کر (ن) لیگ میں شامل ہوئے۔ حال ہی میں ایم این اے بننے والے پیر اقبال شاہ 2005 میں (ق) لیگ کے تحصیل ناظم رہے، جبکہ ان کے بیٹے عامر اقبال شاہ 2002 میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے رہے۔

ضلع خانیوال سے ایم این اے پیر اسلم بودلہ نے 2008 میں (ق) لیگ اور 2002 میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ ان کامیابیوں کے بعد اب وہ ابھی تک مسلم لیگ (ن) کا حصہ ہیں۔ اسی ضلع سے ایم این اے چوہدری افتخار نذیر نے 2002 اور 2008 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور ایک مرتبہ کامیاب بھی ہوئے۔ ایم این اے محمد خان ڈاھا یہاں ثابت قدم رہے اور ان کی فیملی نے (ن) لیگ کے ٹکٹ سے ہی گزشتہ تین انتخابات میں حصہ لیا۔

ضلع وہاڑی سے ایم این اے سید ساجد مہدی سلیم نے 2008 میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اقبال شاہ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اسی ضلع سے ایم این اے چوہدری نذیر آرائیں نے گزشتہ حکومت میں ایک ضمنی انتخاب میں (ن) لیگ کے امیدوار کے خلاف حصہ لیا تو ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے لیکن بعد میں صلح ہوگئی اور وہ 2013 میں (ن) لیگ کا ٹکٹ لینے میں کامیاب رہے۔ وہاڑی سے ہی (ن) لیگ کے ایم این  اے سعید احمد منہیس نے 2008 میں (ن) لیگ کی ممتاز رہنما تہمینہ دولتانہ کے مد مقابل الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لیا تھا۔

ڈیرہ غازی خان سے (ن) لیگ کے ایم این اے امجد فاروق کھوسہ نے 2008کے الیکشن میں آزاد حیثیت میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بادشاہ خان قیصرانی کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا جبکہ 2002 میں وہ (ن) لیگ کی جانب سے امیدوار تھے۔ موجودہ وفاقی وزیر اور جنوبی پنجاب میں ن لیگ کے ”نظریاتی محافظ“ سردار اویس لغاری، جنہوں نے کچھ دن قبل پریس کانفرنس کرکے بغاوت کرنے والوں کو 'کاؤنٹر' کیا تھا، 2002 میں نیشنل الائنس اور 2008میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ چکے ہیں اور اس بار بھی آزاد حیثیت میں جیت کر ن لیگ میں شامل ہوئے۔

راجن پور سے ن لیگ کے ایم این اے جعفر خان لغاری نے 2008 میں ق لیگ کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیا۔

ضلع مظفر گڑھ سے ایم این اے سلطان ہنجرا (ق) لیگ سے ضلع ناظم مظفر گڑھ رہے اور اس دوران ان کے بھتیجے (ق) لیگ کی جانب سے الیکشن میں حصہ لیتے رہے۔ اسی ضلع سے عاشق حسین گوپانگ نے گزشتہ الیکشن آزاد جیتا اور (ن) لیگ کا حصہ بنے جبکہ اس سے پہلے انہوں نے 2 الیکشن مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر لڑے۔

لیہ سے سید ثقلین بخاری اور صاحبزادہ فیض الحسن سہواگ نے گزشتہ تین انتخابات میں (ن) لیگ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور پارٹی کا ساتھ دیا۔ 2013 میں جیت ان کا مقدر بنی۔

ضلع بہاولپور سے سید سمیع الحسن گیلانی نے اس بار (ن) لیگ کا ٹکٹ حاصل کیا جبکہ اس سے پہلے 2002 اور 2008 کا الیکشن انہوں نے مسلم لیگ (ق) سے لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح ایم این اے نجیب الدین اویسی نے 2008 کے الیکشن میں مسلم لیگ ق کی جانب سے حصہ لیا۔ بزرگ سیاستدان ریاض حسین پیر زادہ کا ماضی بھی کچھ مختلف نہیں، انہوں نے بھی ہر بڑی پارٹی سے راہ و رسم بنائی جبکہ وفاقی وزیر بلیغ الرحمن نے 2008 اور 2013 میں (ن) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔

بہاولنگر سے ایم این اے عالم داد لالیکا کی والدہ نے 2008 میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا جبکہ ان کے والد عبدالستار لالیکا 2002 میں (ق) لیگ کے وزیر رہے۔

رحیم یار خان سے (ن) لیگ کے ایم این اے میاں امتیاز احمد نے 2008 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے (ن) لیگ کے رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر چوہدری جعفر اقبال کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا۔

ان تمام انتخابی حادثات کے بعد جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے وہ ایم این اے جو ہر دور میں ثابت قدم نظر آتے ہیں، ان میں ملتان سے عبدالغفار ڈوگر، خانیوال سے محمد خان ڈاھا، ڈیرہ غازی خان سے حافظ عبدالکریم، لیہ سے فیض الحسن سہواگ، سید ثقلین بخاری، بہاولپور سے بلیغ الرحمن، رحیم یار خان سے ارشد لغاری شامل ہیں جبکہ ڈیرہ غازی خان سے امجد فاروق کھوسہ اور ملتان سے جاوید علی شاہ بھی ایک آدھ مرتبہ دوسری جماعتوں سے اپنا دامن بچاتے نظر آئے۔

ان حقائق کی بنیاد پر آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان میں سے اکثر ایم این ایز بہتر سیاسی مستقبل کے لیےکوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی اور خصوصاً تحریک انصاف ہر حلقے میں بہترین امیدواروں کو سامنے لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ باغی ارکان دیگر ایم این ایز کو اپنے ساتھ ملا کر ”پیکیج ڈیل“ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے انتخابی حلقوں کی سیاست متاثر نہ ہو اور پورے گروپ کے انتخابی ٹکٹوں کو یقینی بنایا جا سکے۔

ماجد صدیق نظامی جیو ٹی وی میں سینئیر پرودیوسر ہیں۔